جامی ردولوی کی غزل

    جواں تھا دل نہ تھا اندیشۂ سود و زیاں پہلے

    جواں تھا دل نہ تھا اندیشۂ سود و زیاں پہلے وہ تھے کیا مہرباں سارا جہاں تھا مہرباں پہلے کوئی منزل ہو ہمت چاہئے سر ہو ہی جاتی ہے مگر لٹتے ہیں رستے میں ہزاروں کارواں پہلے وہ میر کارواں بھی اک نہ اک دن ہو کے رہتے ہیں جنہوں نے مدتوں چھانی ہے خاک کارواں پہلے خودی جاگی اٹھے پردے اجاگر ...

    مزید پڑھیے

    جواں تھا دل نہ تھا اندیشۂ سود و زیاں پہلے

    جواں تھا دل نہ تھا اندیشۂ سود و زیاں پہلے وہ تھے کیا مہرباں سارا جہاں تھا مہرباں پہلے وہ میر کارواں بھی اک نہ اک دن ہو کے رہتے ہیں جنہوں نے مدتوں چھانی ہے خاک کارواں پہلے خودی جاگی اٹھے پردے اجاگر ہو گئیں راہیں نظر کوتاہ تھی تاریک تھا سارا جہاں پہلے وہی برق تجلی شمع ہے میرے ...

    مزید پڑھیے

    کیا کریں تدبیر وحشت اے دل دیوانہ ہم

    کیا کریں تدبیر وحشت اے دل دیوانہ ہم اس سے مل بھی تو نہیں سکتے ہیں آزادانہ ہم ہم رہیں دوری کش مئے غیر مست ارغواں آج ٹکرا دیں گے ہر پیمانے سے پیمانہ ہم ڈھونڈھ لے گا آپ منزل کاروان زندگی غیر کا احسان کیوں لیں ہمت مردانہ ہم لب رہے خاموش لیکن ساری باتیں ہو گئیں اک نظر میں کہہ گئے ...

    مزید پڑھیے

    دل کو بچا کے لائے تھے سارے جہاں سے ہم

    دل کو بچا کے لائے تھے سارے جہاں سے ہم آخر میں چوٹ کھا گئے اک مہرباں سے ہم بے فکریوں کا راج ہو رسہ کشی کے ساتھ وہ مدرسہ حیات کا لائیں کہاں سے ہم اب گرد بھی ہماری نہ پائیں گے قافلے آگے نکل گئے ہیں بہت کارواں سے ہم اپنا شمار ہی نہیں پھولوں میں باغ کے ایسے میں کیا امید کریں باغباں سے ...

    مزید پڑھیے

    دل میں ان کو بسا کے دیکھ لیا

    دل میں ان کو بسا کے دیکھ لیا آگ گھر میں لگا کے دیکھ لیا زندگانی وبال دوش ہوئی دل کی باتوں میں آ کے دیکھ لیا اشک بھر لائی ہیں مری آنکھیں اس نے جب مسکرا کے دیکھ لیا اور اب کس کا اعتبار کریں دل کو اپنا بنا کے دیکھ لیا ان کی عادت ہے مسکرا دینا ہم نے آنسو بہا کے دیکھ لیا ہم کو جادو ...

    مزید پڑھیے

    ہر تار نفس خار ہے معلوم نہیں کیوں

    ہر تار نفس خار ہے معلوم نہیں کیوں آسان بھی دشوار ہے معلوم نہیں کیوں سو بار مروں اور جیوں تب انہیں پاؤں دل اس پہ بھی تیار ہے معلوم نہیں کیوں سو طرح کے آرام میسر سہی لیکن دل جینے سے بیزار ہے معلوم نہیں کیوں جو لذتیٔ جور و جفا تھا اسی دل پر اک شوخ نظر بار ہے معلوم نہیں کیوں اک بار ...

    مزید پڑھیے

    آتی ہے زندگی میں خزاں بھی بہار بھی

    آتی ہے زندگی میں خزاں بھی بہار بھی صحن چمن میں پھول بھی ہوتے ہیں خار بھی ناراضگی نہ ہو تو محبت ہے بے مزہ ہستی خوشی بھی غم بھی ہے نفرت بھی پیار بھی بے اعتنائیوں میں بھی ہے چاشنی کا لطف ہوتا ہے التفات کبھی ناگوار بھی چھوڑا نہ خوف ہجر نے دامن تمام رات آغوش پرسکوں میں تھا دل بیقرار ...

    مزید پڑھیے

    اس کی چشم کرم تھی حیات آفریں خشک پتوں پہ جیسے نکھار آ گیا

    اس کی چشم کرم تھی حیات آفریں خشک پتوں پہ جیسے نکھار آ گیا آرزو کے شگوفے مہکنے لگے دل کی بے‌ چینیوں کو قرار آ گیا دشت غربت میں بھی زانوئے دوست پر میری تنہائی کو یہ تأثر ہوا بھولا بھٹکا ہوا اک مسافر کوئی یک بیک جیسے اپنے دیار آ گیا عمر بھر فکر دنیا میں غلطاں رہے مارے مارے پھرے ...

    مزید پڑھیے

    اب اپنے دیس کی آب و ہوا ہم کو نہیں بھاتی

    اب اپنے دیس کی آب و ہوا ہم کو نہیں بھاتی غلامی ایک ذلت تھی سراپا درد آزادی قیادت کرنے والوں کو مسیحائی کا دعویٰ تھا کسی نے لیکن اب تک قوم کی بیڑی نہیں کاٹی ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی انہیں اقوام کے رحم و کرم پر اب بھی جیتے ...

    مزید پڑھیے

    لطف زندگانی کا شوق آرزو میں ہے

    لطف زندگانی کا شوق آرزو میں ہے جذبہ و جنوں میں ہے سعی و جستجو میں ہے جو سکون خاطر ہے اس کے عیب میں دل کش چاشنی ہے لکنت ہے سحر گفتگو میں ہے اس کے قرب کی لذت مجھ سے کیا بیاں ہوگی بے پناہ کیفیت صرف آرزو میں ہے زہر زندگانی کا پی کے عقل آئی ہے داروئے غم ہستی تلخئ سبو میں ہے بھیڑ میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2