Jameeluddin Qadri

جمیل الدین قادری

جمیل الدین قادری کی غزل

    میں نے تجھے تجھ سے کبھی ہٹ کر نہیں دیکھا

    میں نے تجھے تجھ سے کبھی ہٹ کر نہیں دیکھا جو کچھ بھی ہوا اس کو پلٹ کر نہیں دیکھا جب سے کہ نگاہوں میں بسی ہے تری صورت قرآن کے اوراق الٹ کر نہیں دیکھا راتوں کو اندھیرے ہی نگہبان تھے تیرے تجھ کو تری نیندوں نے اچٹ کر نہیں دیکھا معیار کا قیمت کا کہاں اس کو پتہ ہو جس مال نے خیرات میں بٹ ...

    مزید پڑھیے

    آئینہ کی بے ریا تصریح لے کر کیا کریں

    آئینہ کی بے ریا تصریح لے کر کیا کریں آپ اپنے دور کی تلمیح لے کر کیا کریں باہری دنیا کو دانوں میں پھرانا خوب ہے منبر و محراب میں تسبیح لے کر کیا کریں کو بہ کو کھلتے نہیں نکھری ہوئی غزلوں کے باغ امتزاج فرصت تفریح لے کر کیا کریں اس منافق دور نے جینا ہمیں سکھلا دیا اب ضمیر خفتہ کی ...

    مزید پڑھیے

    پاس رہنا بھی اور پرے رہنا

    پاس رہنا بھی اور پرے رہنا ہائے ان کا ڈرے ڈرے رہنا زندگی نام خود ہے ہلچل کا ہاتھ پر ہاتھ کیوں دھرے رہنا جو غزل کو سمیٹ لیتی ہے اس ادا پر مرے مرے رہنا یہ بھی زندہ دلی کا مصرف تھا ساتھ شاہوں کے مسخرے رہنا بات قد آوری کی چلتی ہے اے جمیلؔ آپ کچھ پرے رہنا

    مزید پڑھیے