Jameel Qureshi

جمیل قریشی

جمیل قریشی کی غزل

    روایتوں کو کبھی تم اساس مت کرنا

    روایتوں کو کبھی تم اساس مت کرنا میں لوٹ آؤں گا ہرگز یہ آس مت کرنا گرفت خواب سے جس نے رہائی دی تم کو وہ خود بھی جاگتا ہوگا قیاس مت کرنا بکھر رہے ہو تو پھر ٹوٹتا بھی اندر سے شکستگی کو تم اپنا لباس مت کرنا کیا ہو جاں سے گزرنے کا فیصلہ جس میں اس ایک لمحے کو صرف ہراس مت کرنا اگرچہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ سب کے دل میں بسا تھا حبیب ایسا تھا

    وہ سب کے دل میں بسا تھا حبیب ایسا تھا تمام شہر ہی میرا رقیب ایسا تھا لہو لہو تھا اجالا سحر کے ماتھے پر افق سے جھانکتا سورج صلیب ایسا تھا متاع درد و الم بھی تو اس کے پاس نہ تھی مجھے وہ کیا عطا کرتا غریب ایسا تھا بنا بنا کے میں باتیں ہزار کرتا مگر وہ مجھ سے جیت ہی جاتا خطیب ایسا ...

    مزید پڑھیے

    دراز دست کو دست عطا کہیں نہ ملا

    دراز دست کو دست عطا کہیں نہ ملا بخیل شہر تھا حاجت روا کہیں نہ ملا فصیل شب پہ سحر کا دیا جلاتا کون کہ کوئی شخص مجھے جاگتا کہیں نہ ملا لہو کی آگ تھی روشن ہر اک ہتھیلی پر کسی بھی ہاتھ پہ رنگ حنا کہیں نہ ملا گرا خود اپنی نظر سے تو پوچھتا پھر کون خودی گنوائی تو مجھ کو خدا کہیں نہ ...

    مزید پڑھیے