Jameel Qureshi

جمیل قریشی

جمیل قریشی کے تمام مواد

3 غزل (Ghazal)

    روایتوں کو کبھی تم اساس مت کرنا

    روایتوں کو کبھی تم اساس مت کرنا میں لوٹ آؤں گا ہرگز یہ آس مت کرنا گرفت خواب سے جس نے رہائی دی تم کو وہ خود بھی جاگتا ہوگا قیاس مت کرنا بکھر رہے ہو تو پھر ٹوٹتا بھی اندر سے شکستگی کو تم اپنا لباس مت کرنا کیا ہو جاں سے گزرنے کا فیصلہ جس میں اس ایک لمحے کو صرف ہراس مت کرنا اگرچہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ سب کے دل میں بسا تھا حبیب ایسا تھا

    وہ سب کے دل میں بسا تھا حبیب ایسا تھا تمام شہر ہی میرا رقیب ایسا تھا لہو لہو تھا اجالا سحر کے ماتھے پر افق سے جھانکتا سورج صلیب ایسا تھا متاع درد و الم بھی تو اس کے پاس نہ تھی مجھے وہ کیا عطا کرتا غریب ایسا تھا بنا بنا کے میں باتیں ہزار کرتا مگر وہ مجھ سے جیت ہی جاتا خطیب ایسا ...

    مزید پڑھیے

    دراز دست کو دست عطا کہیں نہ ملا

    دراز دست کو دست عطا کہیں نہ ملا بخیل شہر تھا حاجت روا کہیں نہ ملا فصیل شب پہ سحر کا دیا جلاتا کون کہ کوئی شخص مجھے جاگتا کہیں نہ ملا لہو کی آگ تھی روشن ہر اک ہتھیلی پر کسی بھی ہاتھ پہ رنگ حنا کہیں نہ ملا گرا خود اپنی نظر سے تو پوچھتا پھر کون خودی گنوائی تو مجھ کو خدا کہیں نہ ...

    مزید پڑھیے