یہ تمنا تھی کہ ہم اتنے سخنور ہوتے
یہ تمنا تھی کہ ہم اتنے سخنور ہوتے اک غزل کہتے تو آباد کئی گھر ہوتے دوریاں اتنی دلوں میں تو نہ ہوتیں یا رب پھیل جاتے یہ جزیرے تو سمندر ہوتے اپنے ہاتھوں پہ مقدر کے نوشتے بھی پڑھ نہ سہی معنی ذرا لفظ تو بہتر ہوتے دل پہ اک وحی اور الہام کا رہتا ہے سماں ہم اگر رند نہ ہوتے تو پیمبر ...