Jafar Baluch

جعفر بلوچ

جعفر بلوچ کی غزل

    کتنی سزا ملی ہے مجھے عرض حال پر

    کتنی سزا ملی ہے مجھے عرض حال پر پہرے لگے ہوئے ہیں مری بول چال پر کہتے ہیں لوگ جوشش فصل بہار ہے پھولوں کا جب مزاج نہ ہو اعتدال پر تو اپنی سسکیوں کو دبا اپنے اشک پونچھ اے دوست چھوڑ دے تو مجھے میرے حال پر پھر آج عصمتوں کی جبیں ہے عرق عرق تہمت لگی ہے پھر کسی مریم خصال پر محسوس ...

    مزید پڑھیے

    جان فکر و فن اب بھی عشق کی کہانی ہے

    جان فکر و فن اب بھی عشق کی کہانی ہے لفظ ہیں نئے لیکن داستاں پرانی ہے زندگی کے افسانے ایک سے سہی لیکن جو مری کہانی ہے وہ مری کہانی ہے دیکھتا ہے رہ رہ کر منہ نگاہ والوں کا مصرعۂ غریب اپنا نقش بے زبانی ہے التفات فرمائیں یا تغافل اپنائیں مدعا حسینوں کا صرف جاں ستانی ہے پر خطا سہی ...

    مزید پڑھیے

    کشاد ذہن و دل و گوش کی ضرورت ہے

    کشاد ذہن و دل و گوش کی ضرورت ہے یہ زندگی ہے یہاں ہوش کی ضرورت ہے سنائی دے گی یقیناً ضمیر کی آواز مخاطبین سبک گوش کی ضرورت ہے اب احتیاج نہیں سرو‌ قامتوں کی مجھے مجھے تو اب کسی ہم دوش کی ضرورت ہے خروش خم کا بھرم کھولنا ہے کیا مشکل بس ایک رند بلا نوش کی ضرورت ہے نگار صبح کے آنسو ...

    مزید پڑھیے

    طریق کہنہ پہ اب نظم گلستاں نہ رہے

    طریق کہنہ پہ اب نظم گلستاں نہ رہے مری بہار کو اندیشۂ خزاں نہ رہے یہ آرزو ہے بدل جائے رسم شہر وفا اداس حسن نہ ہو عشق سر گراں نہ رہے پیام وصل سے دل باغ باغ ہو جائیں لبوں پہ شکوۂ بے مہریٔ بتاں نہ رہے طلوع مہر بڑے تزک و احتشام سے ہو افق سیاہئ شب سے دھواں دھواں نہ رہے سماعتوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    آج کسی کی یاد میں ہم جی بھر کر روئے دھویا گھر

    آج کسی کی یاد میں ہم جی بھر کر روئے دھویا گھر آج ہمارا گھر لگتا ہے کیسا اجلا اجلا گھر اپنے آئیں سر آنکھوں پر غیر کی یہ بیٹھک نہ بنے گھر آسیب کا بن جائے گا ورنہ ہنستا بستا گھر گھر کو جب ہم جھاڑیں پوچھیں رہتے ہیں محتاط بہت گرد آلود نہیں ہونے دیتے ہم ہم سایے کا گھر تم نے کڑیاں ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک حال میں چلنے سے جس کو کام رہا

    ہر ایک حال میں چلنے سے جس کو کام رہا وہ شخص قاعد یاران تیزگام رہا سفر علامت ہستی سفر دلیل حیات خوشا وہ لوگ سفر جن کا ناتمام رہا حیات گل کا حیات چمن ہے پیمانہ امر ہے پھول چمن کو اگر دوام رہا بیاض مہر نگل کر بھی رات رات رہی سیاہ کار کا چہرہ سیاہ فام رہا حیات و موت کے سنگم پہ جی ...

    مزید پڑھیے

    وہ شخص میری رسائی سے ماورا بھی نہ تھا

    وہ شخص میری رسائی سے ماورا بھی نہ تھا بشر بھی خیر نہ ہوگا مگر خدا بھی نہ تھا کہا شعور نے اس وقت حرف قم مجھ سے کہ لا شعور جگانے سے جاگتا بھی نہ تھا عجب تھی ساعت آغاز گلستاں بندی نوید گل بھی نہ تھی مژدۂ صبا بھی نہ تھا وہ ابتدائےسفر اب بھی یاد آتی ہے کسی میں میری رفاقت کا حوصلہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ آہ سر شام بھی ضروری ہے

    اگرچہ آہ سر شام بھی ضروری ہے دل ستم زدہ آرام بھی ضروری ہے ستم شعار کی تفریح سامعہ کے لیے خروش مرغ تہ دام بھی ضروری ہے ضیائے کرمک شب تاب ہی نہیں کافی ستارۂ سحر انجام بھی ضروری ہے گراں بہا ہے مباحث کی شبنم آگینی اگرچہ برش صمصام بھی ضروری ہے بڑی ہے بات تو منہ بھی بڑا مہیا کر پھر ...

    مزید پڑھیے

    خزاں کے دوش پہ ہے فصل گل کا رخت ابھی

    خزاں کے دوش پہ ہے فصل گل کا رخت ابھی کہ برگ و بار سے خالی ہے ہر درخت ابھی ابھی غموں سے عبارت ہے سر نوشت بشر کہ آسمان پرے ہے زمین سخت ابھی سمجھ شعاع بریدہ نہ صرف جگنو کو کرن کرن کا جگر ہوگا لخت لخت ابھی متاع جاں بھی اسے پیش کر چکا ہوں میں مرے رقیب کا لہجہ ہے کیوں کرخت ابھی تمام ...

    مزید پڑھیے