Iqbal Mahir

اقبال ماہر

  • 1919

اقبال ماہر کی غزل

    گل کی خوشبو کی طرح آنکھ کے آنسو کی طرح

    گل کی خوشبو کی طرح آنکھ کے آنسو کی طرح دل پریشان ہے گرد رم آہو کی طرح جو گل اندام مکینوں کو ترستے ہیں ہنوز شہر میں کتنے کھنڈر ہیں مرے پہلو کی طرح زلف گیتی کو بھی آئینہ و شانہ مل جائے تم سنور جاؤ جو آرائش گیسو کی طرح رقص کرتا ہے زر و سیم کی جھنکار پہ فن مرمریں فرش پہ بجتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    شہپارۂ ادب ہو اگر واردات دل

    شہپارۂ ادب ہو اگر واردات دل نقش و نگار فکر میں ہو جائے منتقل تھا اعتبار ضبط مگر آج ناگہاں خود وہ تڑپ اٹھے ہیں کچھ ایسا دکھا ہے دل لطف و کرم کی اب وہ تمنا نہیں رہی کس دور میں ہوئی ہے تری چشم منفعل تھی آرزو سکوں کی مگر اس قدر نہیں اس شدت خلوص سے گھبرا گیا ہے دل کس وقت یاد آئی ہے ...

    مزید پڑھیے

    زیست تکرار نفس ہو جیسے

    زیست تکرار نفس ہو جیسے صرف جینے کی ہوس ہو جیسے صحن گلشن میں بھی جی ڈرتا ہے سایۂ گل میں قفس ہو جیسے ترک الفت کی قسم کھاتے ہیں دل پہ انسان کا بس ہو جیسے وہی رفتار مہ و سال ہنوز وقت خاموش جرس ہو جیسے منتظر یوں بھی رہے ہیں ماہرؔ ایک پل لاکھ برس ہو جیسے

    مزید پڑھیے

    بگولوں کی صفیں کرنوں کے لشکر سامنے آئے

    بگولوں کی صفیں کرنوں کے لشکر سامنے آئے قدم اٹھے جدھر زخموں کے پتھر سامنے آئے تھکن سے ٹوٹ کر جب خواب راحت کی تمنا کی ردائے غم لیے کانٹوں کے بستر سامنے آئے دریدہ بادباں کمزور کشتی رات طوفانی دہن کھولے سیاہی کے سمندر سامنے آئے تلاش آب حیواں میں جہاں میرے قدم پہنچے وہاں زہراب سے ...

    مزید پڑھیے

    اہل فن اہل ادب اہل قلم کہتے رہے

    اہل فن اہل ادب اہل قلم کہتے رہے بد زباں کو ہم زبان دان عجم کہتے رہے جبر و استبداد کو جود و کرم کہتے رہے صبر‌ و طاعت کو علاج درد و غم کہتے رہے ہم کو ہر محفل میں تھا آداب محفل کا خیال احتراماً ہر کسی کو محترم کہتے رہے چشم پوشی سے ریا کاری کو شہہ ملتی رہی عیب پوشی کو شرافت کا بھرم ...

    مزید پڑھیے

    حسب معمول آئے ہیں شاخوں میں پھول اب کے برس

    حسب معمول آئے ہیں شاخوں میں پھول اب کے برس سایہ افگن ہیں مگر ان پر ببول اب کے برس اس طرح بدلا محبت کا اصول اب کے برس ہم بھی ہیں مغموم تم بھی ہو ملول اب کے برس جھونپڑوں سے کٹ کے چاندی کے بگولے چل دیئے بالا بالا اڑ گئی سونے کی دھول اب کے برس اتنے غم اتنے مسائل اتنے عنوان سخن ہے جدا ...

    مزید پڑھیے

    اجنبیت کا ہر اک رخ پہ نشاں ہے یارو

    اجنبیت کا ہر اک رخ پہ نشاں ہے یارو اپنے ہی شہر میں غربت کا سماں ہے یارو آسمانوں میں لچکتی ہوئی یہ قوس قزح بھیس بدلے ہوئے راون کی کماں ہے یارو اک سیاست ہے کہ ہے دیر و حرم کی محبوب اک محبت ہے کہ رسوائے جہاں ہے یارو اہل دل رہ گئے آثار قدیمہ ہو کے زندگی ایک شکستہ سا مکاں ہے یارو دل ...

    مزید پڑھیے

    راہ دونوں کی وہی ہے سامنا ہو جائے گا

    راہ دونوں کی وہی ہے سامنا ہو جائے گا ہوگا نظروں کا تصادم حادثہ ہو جائے گا تم سے چھوٹا بھی اگر تو زندگی ہے اک سفر ساتھ میرے اور کوئی دوسرا ہو جائے گا دل کی افتاد طبیعتی کو بھلا روکے گا کون پھر کسی غم میں کسی دن مبتلا ہو جائے گا قافلے والوں میں تبلیغ سفر کرتے رہو کچھ نہ کچھ تو ...

    مزید پڑھیے

    نظر نظر میں تمنا قدم قدم پہ گریز

    نظر نظر میں تمنا قدم قدم پہ گریز جہاں جہاں بھی ملے کوہ کن وہیں پرویز گھٹا گھٹا سا دھندلکا ہے قصر و ایواں میں نکل چلو جہاں میداں میں روشنی ہے تیز ترے کرم پہ بھی اندیشہ ہائے دور و دراز ملے ہیں جام و سبو وہ بھی زہر سے لبریز نمود خار مغیلاں ہے باغباں کو پسند زمین لالہ و گل ورنہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    جنوں میں ہم رہ خوف و خطر سے گزرے ہیں

    جنوں میں ہم رہ خوف و خطر سے گزرے ہیں جدھر سے کوئی نہ گزرے ادھر سے گزرے ہیں صف صلیب جہاں انتظار کرتی تھی مسیح وقت اسی رہ گزر سے گزرے ہیں میں ڈوب ڈوب کے ابھرا ہوں ہر تلاطم سے ہزار سیل رواں میرے سر سے گزرے ہیں جو کل تھے بیٹھے ہوئے گیسوؤں کے سائے میں وہ آج تپتی ہوئی رہ گزر سے گزرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2