خواب لے کر کہاں نکل آئے
خواب لے کر کہاں نکل آئے تم یہاں رائیگاں نکل آئے دل یہاں سے اچاٹ ہو جاتا لوگ کچھ مہرباں نکل آئے کون نکلا ہوا کی دستک پر تھے ہمیں خوش گماں نکل آئے اک ترے عشق کے حوالے سے کام کتنے یہاں نکل آئے
خواب لے کر کہاں نکل آئے تم یہاں رائیگاں نکل آئے دل یہاں سے اچاٹ ہو جاتا لوگ کچھ مہرباں نکل آئے کون نکلا ہوا کی دستک پر تھے ہمیں خوش گماں نکل آئے اک ترے عشق کے حوالے سے کام کتنے یہاں نکل آئے
مزاج شہر جو تحریر کرنے نکلے ہیں ہم اپنے آپ کو دلگیر کرنے نکلے ہیں نکل کے خواب سرا سے بجھا کے چشم گماں خیال و خواب کو تعبیر کرنے نکلے ہیں سجا کے آنکھ میں وحشت بدن پہ ویرانی ترے جمال کی تشہیر کرنے نکلے ہیں جو دن کی بھیڑ میں ہم سے بچھڑ گئی تھی کہیں اس ایک شام کو تصویر کرنے نکلے ...
یوں ہی کبھی مچل گئے یوں ہی کبھی بہل گئے ہم کو کہاں قرار تھا تم سے ملے سنبھل گئے دل کی کبھی سنی نہیں اور کبھی تو بے سبب آنکھ ذرا سی نم ہوئی اس کی طرف نکل گئے یوں ہی رہیں گے رات دن یوں ہی زمین و آسماں تم جو کبھی بدل گئے ہم جو کبھی بدل گئے کوئی دریچہ وا ہوا کوئی نہ آیا بام پر آج یہ کس ...
ذرا بدلا نہیں منظر وہی ہے وہی ہے دشت یہ لشکر وہی ہے نئی ہے کچھ بدن میں بے قراری مگر کمرہ وہی بستر وہی ہے وہی وحشت جگاتی آنکھ اس کی یہاں بھی دل وہی ہے سر وہی ہے دھڑکتا کیوں نہیں ہے اس طرح دل اگر یہ وہ گلی ہے گھر وہی ہے وہی تلخی ہے دن آغاز ہوتے وہی دفتر مرا افسر وہی ہے نہیں بنتے ...
رنگ اس کا نیا نظر آیا شام تھا دھوپ سا نظر آیا وہی کمرہ وہی تھا سب سامان وہ مگر دوسرا نظر آیا راستے میں وہ آ گیا تھا نظر پھر کہاں راستہ نظر آیا وہ گلی دوسری نظر آئی در و دیوار سا نظر آیا وہ جو تعبیر تھا مجھے اک دن خواب ہوتا ہوا نظر آیا جو میسر ہے اس میں بس خاورؔ دل ہی کچھ کام کا ...