ذرا بدلا نہیں منظر وہی ہے

ذرا بدلا نہیں منظر وہی ہے
وہی ہے دشت یہ لشکر وہی ہے


نئی ہے کچھ بدن میں بے قراری
مگر کمرہ وہی بستر وہی ہے


وہی وحشت جگاتی آنکھ اس کی
یہاں بھی دل وہی ہے سر وہی ہے


دھڑکتا کیوں نہیں ہے اس طرح دل
اگر یہ وہ گلی ہے گھر وہی ہے


وہی تلخی ہے دن آغاز ہوتے
وہی دفتر مرا افسر وہی ہے


نہیں بنتے وہ خد و خال خاورؔ
وہی ہے چاک کوزہ گر وہی ہے