Iqbal Husain Rizvi Iqbal

اقبال حسین رضوی اقبال

  • 1933

اقبال حسین رضوی اقبال کی غزل

    نگاہوں سے میری نگاہیں بچائے

    نگاہوں سے میری نگاہیں بچائے چلے آ رہے ہیں وہ طوفاں اٹھائے لہو دل کا اشکوں میں کیوں آ نہ جائے کہاں تک کوئی راز الفت چھپائے اسی کی ہے دنیا اسی کا زمانہ جو سب کچھ ہٹا کر کبھی کچھ نہ پائے ابھی کچھ ہے باقی نشان نشیمن کہو برق سے اور ابھی ظلم ڈھائے چلے آئیں گے خود وہ بیتاب ہو ...

    مزید پڑھیے

    وہ آ رہے ہیں وہ جا رہے ہیں مرے تصور پہ چھا رہے ہیں

    وہ آ رہے ہیں وہ جا رہے ہیں مرے تصور پہ چھا رہے ہیں کبھی ہیں دل میں کبھی جگر میں کبھی نظر میں سما رہے ہیں جنوں نوازی ہے میری فطرت اسی سے حاصل ہے مجھ کو راحت جو مجھ سے ہوش و خرد نے چھینا جنوں کے صدقہ وہ پا رہے ہیں جگر کو روکوں یا دل کو تھاموں الٰہی کس کس کو میں سنبھالوں مرے تصور کی ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں کو انتشار ہے دل بے قرار ہے

    آنکھوں کو انتشار ہے دل بے قرار ہے اے آنے والے آقا ترا انتظار ہے بالیں پہ وقت نزع کوئی شرمسار ہے اے زندگی پلٹ کہ ترا انتظار ہے اللہ ری یہ نزاکت یک جلوۂ نگاہ خود ان کا حسن ان کی طبیعت پہ بار ہے جینے پہ اختیار نہ مرنے پہ اختیار صدقہ اس اختیار کے کیا اختیار ہے قسمت جدا سہی پہ حقیقت ...

    مزید پڑھیے

    مری نظر سے جو نظریں بچائے بیٹھے ہیں

    مری نظر سے جو نظریں بچائے بیٹھے ہیں خبر بھی ہے انہیں کیا گل کھلائے بیٹھے ہیں ہزار بار جلے جس سے بال و پر اپنے اسی چراغ سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں جو شاخ شوخیٔ برق تپاں سے ہے مانوس اسی پہ آج نشیمن بنائے بیٹھے ہیں پھر اس کے وعدۂ فردا کا ہو یقیں کیسے ہزار بار جسے آزمائے بیٹھے ہیں شب ...

    مزید پڑھیے

    عشق اتنا کمال رکھتا ہے

    عشق اتنا کمال رکھتا ہے حسن کو غم شناس کرتا ہے چشم ساقی میں جام جم کی قسم رنگ دنیا و دیں چھلکتا ہے شمع محفل ہو یا کہ پروانہ وہ بھی جلتی ہے یہ بھی جلتا ہے ڈوب جائے نہ غم کا مے خانہ جام قلب حزیں چھلکتا ہے بس اے فتنہ خرام ناز ٹھہر اب قیامت کا دل مچلتا ہے مصلحت یہ ہے تم بدل جاؤ رنگ ...

    مزید پڑھیے

    پاتا ہوں اضطراب رخ پر حجاب میں

    پاتا ہوں اضطراب رخ پر حجاب میں شاید چھپا ہے دل مرا ان کی نقاب میں سوئے فلک وہ دیکھیں اگر پیچ و تاب میں برپا ہو حشر گہن لگے آفتاب میں وہ چاندنی میں رخ سے ہٹا دیں اگر نقاب لگ جائیں چار چاند رخ ماہتاب میں اے ناخدائے کشتئ دل دیکھ بھال کے طوفاں چھپے نہ ہوں کہیں قلب حباب میں صبر آزما ...

    مزید پڑھیے

    دل مضطر کو ہم کچھ اس طرح سمجھائے جاتے ہیں

    دل مضطر کو ہم کچھ اس طرح سمجھائے جاتے ہیں کہ وہ بس آ رہے ہیں آ ہی پہنچے آئے جاتے ہیں نگاہ شوق کے پروردہ نظاروں کی محفل میں یہ دل بہلے نہ بہلے ہاں مگر بہلائے جاتے ہیں بظاہر تو بہت نازک ہیں دل اہل محبت کے یہی شیشے کبھی پتھر سے بھی ٹکرائے جاتے ہیں ہنسا کرتے تھے سن کر داستان قیس ...

    مزید پڑھیے

    ٹکڑے ٹکڑے مرا دامان شکیبائی ہے

    ٹکڑے ٹکڑے مرا دامان شکیبائی ہے کس قدر صبر شکن آپ کی انگڑائی ہے دل نے جذبات محبت سے ضیا پائی ہے میری تنہائی بھی اک انجمن آرائی ہے اب جفا سے بھی گریزاں ہیں وہ اللہ اللہ دیکھیے کیا مرا انجام شکیبائی ہے بجلیاں میرے قفس پر نہ کہیں ٹوٹ پڑیں کیوں صبا خاک نشیمن کی یہاں لائی ہے بس وہی ...

    مزید پڑھیے

    نظر جن کی الجھ جاتی ہے ان کی زلف پیچاں سے

    نظر جن کی الجھ جاتی ہے ان کی زلف پیچاں سے وہی بڑھ کر لپٹ جاتے ہیں اکثر موج طوفاں سے اگر شرما رہا ہے مہر تاباں حسن جاناں سے شفق بھی تو خجل ہے سرخی خون شہیداں سے مرے جوش جنوں کو چھیڑتا ہے کس لئے ہمدم اٹھیں گی آندھیاں لاکھوں اشارے ہیں بیاباں سے ڈبو کر دیکھ کشتی تمنا بحر ہستی ...

    مزید پڑھیے