انجیل صحیفہ کی نظم

    ان چھوئی کتھا

    میں کوئی خواب لکھوں کہانی میں بیتی کسی رات کا کہکشاؤں کی نگری سے گزرے ہوئے رات اوڑھے ہوئے اک حسین ساتھ کا اس گگن کی کتھا بھی لکھوں جس پہ نینوں کے جھلمل دئیے جگمگا اٹھے تھے جس پہ بادل ہماری طرح کھلکھلا اٹھے تھے جس پہ کہرے کی چادر تلے چاند چپ چاپ تھا اور کہیں دور مرلی پہ بجتا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    راضی نامہ

    رات کے کالے بدن پہ ستارے ٹانکنے کی مشق اپنی روح پر پیوند لگانے جیسی مشکل نہیں ہوتی آسمان سے لٹکتی شاخوں پر منتوں کے دھاگے کب تک باندھے جا سکتے ہیں بجھے ہوئے کوئلے اور گیلی لکڑی چنگاری نہیں پکڑتے سوئی ہوئی سرد محبت نے کروٹ بدل لی ہے چراغ لے کر سفر پر نکلنے والی تتلی کو چودہ دن ...

    مزید پڑھیے

    سستی نظم

    کیسے ماتم کروں کیسے نوحے لکھوں کیسے روحوں کی چیخوں سے نظمیں بنوں جاگتی بین کرتی ہواؤں سے جا کر لپٹ جاؤں کیا کرچی کرچی یہ خوابوں کے اعضا جو بکھرے پڑے ہیں انہیں دیکھ کر پھر پلٹ جاؤں کیا اپنے اقدار سے قول و اقرار سے پیچھے ہٹ جاؤں کیا مجھ کو اقرار ہے میں نے خوابوں میں بچھڑے کئی خواب ...

    مزید پڑھیے

    دسمبر آ گیا ہے

    یہاں گوریچ چلتی ہے تو جیسے روح چھلتی ہے زمستاں آ کے رکتا ہے تو اک اک روم دکھتا ہے تعجب ہے مجھے پل پل کہ اب کے سال وادی میں ہماری شال وادی میں سنہری دھوپ اب تک پربتوں پر رقص کرتی ہے ابھی تک سانس کی حدت لبوں کو گرم رکھتی ہے رگوں میں خون کا دوران اب تک ہے دوپہروں سا خزاں کے زرد چہرے پر ...

    مزید پڑھیے

    لے بائی ایریا

    تم نے غور سے دیکھا تم جہاں پہ ہو اس وقت کل وہاں پہ اک لڑکی بے تحاشا حیرت سے تم کو اپنی آنکھوں میں گھونٹ گھونٹ چنتی تھی تم جو سر جھکا کر یوں بے خبر سے بیٹھے تھے جانتے نہیں ہو نا وقت کی نئی دھن پر نظم ہو رہے تھے تم کیا تمہارے چہرے پر اپنی خالی آنکھوں سے کوئی نظم لکھے گا کیا خبر یہ ہے تم ...

    مزید پڑھیے