وہ آتے جاتے ادھر دیکھتا ذرا سا ہے
وہ آتے جاتے ادھر دیکھتا ذرا سا ہے نہیں ہے ربط مگر رابطہ ذرا سا ہے یہ کوفیوں کی کہانی ہے میرے دوست مگر یہاں پہ آپ کا بھی تذکرہ ذرا سا ہے اب اس کو کاٹنے میں جانے کتنی عمر لگے ہمارے درمیاں جو فاصلہ ذرا سا ہے نگاہ ایک سڑک ہے اور اس کی منزل دل ادھر سے جاوے تو یہ راستہ ذرا سا ہے تجھے ...