انعام کبیر کی غزل

    وہ آتے جاتے ادھر دیکھتا ذرا سا ہے

    وہ آتے جاتے ادھر دیکھتا ذرا سا ہے نہیں ہے ربط مگر رابطہ ذرا سا ہے یہ کوفیوں کی کہانی ہے میرے دوست مگر یہاں پہ آپ کا بھی تذکرہ ذرا سا ہے اب اس کو کاٹنے میں جانے کتنی عمر لگے ہمارے درمیاں جو فاصلہ ذرا سا ہے نگاہ ایک سڑک ہے اور اس کی منزل دل ادھر سے جاوے تو یہ راستہ ذرا سا ہے تجھے ...

    مزید پڑھیے

    رواں ندی کے کنارے سڑک پہ رک جانا

    رواں ندی کے کنارے سڑک پہ رک جانا تم آنسوؤں سے نکلنا پلک پہ رک جانا وہ بار بار نہیں بولتا ٹھہرنے کو سو اس کی ایک ذرا سی لچک پہ رک جانا اے میرے یار ترے پیچھے آ رہا ہوں میں تو انتظار کی خاطر فلک پہ رک جانا وہ جس جگہ پہ ملے تھے ہم آخری لمحے تم اس کی سامنے والی سڑک پہ رک جانا

    مزید پڑھیے

    وفور حسن کی لذت سے ٹوٹ جاتے ہیں

    وفور حسن کی لذت سے ٹوٹ جاتے ہیں کچھ آئنے ہیں جو حیرت سے ٹوٹ جاتے ہیں کسی جتن کی ضرورت نہیں پڑے گی تمہیں ہم ایسے لوگ محبت سے ٹوٹ جاتے ہیں زمانہ ان کو بہت جلد مار دیتا ہے جو لوگ اپنی روایت سے ٹوٹ جاتے ہیں کئی زمانے کی سختی بھی جھیل لیتے ہیں کئی وجود حفاظت سے ٹوٹ جاتے ہیں ہم ایسے ...

    مزید پڑھیے

    ادھر جو شخص بھی آیا اسے جواب ہوا

    ادھر جو شخص بھی آیا اسے جواب ہوا کوئی نہیں جو محبت میں کامیاب ہوا وہ خوش نصیب ہیں جن کو خدا کی ذات ملی ہمیں اک آدمی مشکل سے دستیاب ہوا بالآخر آگ دھواں ہو گئی محبت کی کسی کے ساتھ جو دیکھا تھا خواب خواب ہوا تمہارے سامنے کس کو مجال بولنے کی تمہارے سامنے ہر شخص لا جواب ہوا ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    جس قدر بھی ہوا ہے خالی ہے

    جس قدر بھی ہوا ہے خالی ہے یہ جہاں کھوکھلا ہے خالی ہے تم مجھے جس مکاں کا پوچھتے ہو وہ مرے دوست کا ہے خالی ہے قحط نے سارے گھر اجاڑ دیے ایک جو بچ گیا ہے خالی ہے اب جلانے کے کام آئے گا شاخ پر گھونسلہ ہے خالی ہے یعنی کم بولنے میں حکمت ہے اور جو چیختا ہے خالی ہے

    مزید پڑھیے

    یہ رنگ بے رنگ سارے منظر ہیں ایک جیسے

    یہ رنگ بے رنگ سارے منظر ہیں ایک جیسے یہ پھول سارے یہ سارے نشتر ہیں ایک جیسے یہ اول اول تمام بکھرے ہوئے مناظر نظر جما لو تو آخر آخر ہیں ایک جیسے مری نگاہوں سے ہو کے جاتا ہے ان کا پانی یہ سارے دریا سبھی سمندر ہیں ایک جیسے میں کال جس کو ملاؤں جا کر ملے اسی کو یہ کیا کہ دنیا کے سارے ...

    مزید پڑھیے