جس طرف دیکھیے بازار اداسی کا ہے
جس طرف دیکھیے بازار اداسی کا ہے شہر میں کون خریدار اداسی کا ہے اب تو آنکھوں میں بھی آنسو نہیں آتے میرے یہ الگ روپ مرے یار اداسی کا ہے روح بیچاری پریشاں ہے کہاں جائے اب اس قدر جسم پہ اب بار اداسی کا ہے اپنے ہونے کا گماں تک نہیں ہوتا مجھ کو جانے یہ کون سا معیار اداسی کا ہے اب یہ ...