Imran-ul-haq Chauhan

عمران الحق چوہان

عمران الحق چوہان کی غزل

    کوئی تو ہے جو آہوں میں اثر آنے نہیں دیتا

    کوئی تو ہے جو آہوں میں اثر آنے نہیں دیتا مرے نخل تمنا پہ ثمر آنے نہیں دیتا لیے پھرتا ہے مجھ کو قریہ قریہ کو بہ کو ہر دم مگر سارے سفر میں میرا گھر آنے نہیں دیتا مرے خوں سے جلاتا ہے چراغ شہر اہل زر مرے ہی گھر کے آنگن میں سحر آنے نہیں دیتا کھلاتا ہے وہ دل میں نت نئے گل آرزوؤں کے مگر ...

    مزید پڑھیے

    ہم نہ دنیا کے ہیں نہ دیں کے ہیں

    ہم نہ دنیا کے ہیں نہ دیں کے ہیں ہم تو اک زلف عنبریں کے ہیں شیشہ و مے سے بے نیاز ہیں ہم مست اس چشم سرمگیں کے ہیں رنگ ہو روشنی ہو یا خوشبو سب میں پرتو اسی حسیں کے ہیں چشم بے خواب دامن گلگوں سب کرشمے اسی ذہیں کے ہیں ہیں مکیں قریۂ محبت کے آسماں کے نہ ہم زمیں کے ہیں آئے تھے شہر حسن ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو آباد ہونے جا رہے ہیں

    یہ جو آباد ہونے جا رہے ہیں بہت ناشاد ہونے جا رہے ہیں جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے ہم اس کی یاد ہونے جا رہے ہیں تری چشم تماشا کی ہوس میں فقط برباد ہونے جا رہے ہیں گرفتاران دام زلف پیچاں بہت آزاد ہونے جا رہے ہیں سبھی کچھ بھولتا جاتا ہے اور ہم اسی میں شاد ہونے جا رہے ہیں سبھی ...

    مزید پڑھیے

    موسم گل ہے ترے سرخ دہن کی حد تک

    موسم گل ہے ترے سرخ دہن کی حد تک یا مرے زخموں سے آراستہ تن کی حد تک وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے کچھ بھی کیجے یاد رہ جاتی ہے ہلکی سی چبھن کی حد تک نہ کسی گل سے تعلق نہ کسی خار سے بیر ربط گل زار سے ہے بوئے سمن کی حد تک وہ مجھے بھول نہیں پایا ابھی تک یعنی میں اسے یاد ہوں ماتھے کی شکن کی حد ...

    مزید پڑھیے

    اپنے لہو میں زہر بھی خود گھولتا ہوں میں

    اپنے لہو میں زہر بھی خود گھولتا ہوں میں سوز دروں کسی پہ نہیں کھولتا ہوں میں افلاک میری درد تہ جام میں ہیں گم تسبیح مہر و انجم و مہ رولتا ہوں میں کچھ نہ سمجھ کے اٹھ چلے سب میرے غم گسار جانے وہی کہ جس کی زباں بولتا ہوں میں کیا جانے شاخ وقت سے کس وقت گر پڑوں مانند برگ زرد ابھی ڈولتا ...

    مزید پڑھیے

    پیام لے کے ہوا دور تک نہیں جاتی

    پیام لے کے ہوا دور تک نہیں جاتی نوائے خلق خدا دور تک نہیں جاتی یہیں کہیں پہ بھٹکتی ہیں زیر چرخ کہن ہماری کوئی دعا دور تک نہیں جاتی گلے میں حلقۂ زریں حلق میں لقمۂ تر تبھی تو اپنی صدا دور تک نہیں جاتی کسی کے چہرے کے پیچھے کا حال کیا معلوم شکست دل کی صدا دور تک نہیں جاتی مرے دیے ...

    مزید پڑھیے

    اپنے حصے میں ہی آنے تھے خسارے سارے

    اپنے حصے میں ہی آنے تھے خسارے سارے دوست ہی دوست تھے بستی میں ہمارے سارے زیر لب آہ نمی آنکھ میں چپ چپ تنہا ایسے ہی ہوتے ہیں یہ درد کے مارے سارے خواب، امید، تمنائیں، تعلق، رشتے جان لے لیتے ہیں آخر یہ سہارے سارے تجھ کو اک لفظ بھی کہنے کی ضرورت کیا ہے ہم سمجھتے ہیں مری جان اشارے ...

    مزید پڑھیے

    اس کا بدن بھی چاہئے اور دل بھی چاہئے

    اس کا بدن بھی چاہئے اور دل بھی چاہئے سرخیٔ لب بھی گال کا وہ تل بھی چاہئے یہ کاروبار شوق ہے بے گار تو نہیں اس کاروبار شوق کا حاصل بھی چاہئے پانی اور آگ ایک جگہ چاہئیں ہمیں جو شاخ گل بدست ہو قاتل بھی چاہئے سب کو خبر تو ہو کہ وہ میرا ہے بس مرا پہلو میں یار برسر محفل بھی چاہئے پا کر ...

    مزید پڑھیے