عمران عامی کی غزل

    جتنے پانی میں کوئی ڈوب کے مر سکتا ہے

    جتنے پانی میں کوئی ڈوب کے مر سکتا ہے اتنا پانی تو مری اوک میں بھر سکتا ہے یہ تو میں روز کنارے پہ کھڑا سوچتا ہوں پیاس بڑھ سکتی ہے دریا بھی اتر سکتا ہے اک دیا اور تو کچھ کر نہیں سکتا لیکن شب کی دیوار میں دروازہ تو کر سکتا ہے حسن ترتیب سے رکھی ہوئی یادوں کی طرف دیکھنے والا کسی روز ...

    مزید پڑھیے

    میں سچ کہوں پس دیوار جھوٹ بولتے ہیں

    میں سچ کہوں پس دیوار جھوٹ بولتے ہیں مرے خلاف مرے یار جھوٹ بولتے ہیں ملی ہے جب سے انہیں بولنے کی آزادی تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں میں مر چکا ہوں مجھے کیوں یقیں نہیں آتا تو کیا یہ میرے عزا دار جھوٹ بولتے ہیں یہ شہر عشق بہت جلد اجڑنے والا ہے دکان دار و خریدار جھوٹ بولتے ...

    مزید پڑھیے

    ہمسائے میں شیطان بھی رہتا ہے خدا بھی

    ہمسائے میں شیطان بھی رہتا ہے خدا بھی جنت بھی میسر ہے جہنم کی ہوا بھی یہ شہر تو لگتا ہے کباڑی کی دکاں ہے کھوٹا بھی اسی مول میں بکتا ہے کھرا بھی اس جسم کو بھی چاٹ گئی سانس کی دیمک میں نے اسے دیکھا تھا کسی وقت ہرا بھی جیسے کبھی پہلے بھی میں گزرا ہوں یہاں سے مانوس ہے اس رہ سے مری ...

    مزید پڑھیے

    بات دل کو مرے لگی نہیں ہے

    بات دل کو مرے لگی نہیں ہے میرے بھائی یہ شاعری نہیں ہے جانتی ہے مرے چراغ کی لو کون سے گھر میں روشنی نہیں ہے وہ تعلق بھی مستقل نہیں تھا یہ محبت بھی دائمی نہیں ہے میں جو قصہ سنا چکا تو کھلا کوئی دیوار بولتی نہیں ہے دیکھنے والی آنکھ بھی تو ہو کون دریا میں جل پری نہیں ہے بزدلا چھپ ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے اک ہاتھ کیا ملا لیا ہے

    تجھ سے اک ہاتھ کیا ملا لیا ہے شہر نے واقعہ بنا لیا ہے ہم تو ہم تھے کہ اس پری رو نے آئنے کا بھی دل چرا لیا ہے ورنہ یہ سیل آب لے جاتا شہر کو آگ نے بچا لیا ہے ایسی ناؤ میں کیا سفر کرنا جس نے دریا کو دکھ سنا لیا ہے کوزہ گر نے ہماری مٹی سے کیا بنانا تھا کیا بنا لیا ہے دیکھیے پہلے کون ...

    مزید پڑھیے

    اس دشت سے آگے بھی کوئی دشت گماں ہے

    اس دشت سے آگے بھی کوئی دشت گماں ہے لیکن یہ یقیں کون دلائے گا کہاں ہے یہ روح کسی اور علاقے کی مکیں ہے یہ جسم کسی اور جزیرے کا مکاں ہے کرتا ہے وہی کام جو کرنا نہیں ہوتا جو بات میں کہتا ہوں یہ دل سنتا کہاں ہے کشتی کے مسافر پہ یونہی طاری نہیں خوف ٹھہرا ہوا پانی کسی خطرے کا نشاں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی مجنوں کوئی فرہاد بنا پھرتا ہے

    کوئی مجنوں کوئی فرہاد بنا پھرتا ہے عشق میں ہر کوئی استاد بنا پھرتا ہے جس سے تعبیر کی اک اینٹ اٹھائی نہ گئی خواب کے شہر کی بنیاد بنا پھرتا ہے پہلے کچھ لوگ پرندوں کے شکاری تھے یہاں اب تو ہر آدمی صیاد بنا پھرتا ہے دھوپ میں اتنی سہولت بھی غنیمت ہے مجھے ایک سایہ مرا ہم زاد بنا پھرتا ...

    مزید پڑھیے

    آخر اک دن سب کو مرنا ہوتا ہے

    آخر اک دن سب کو مرنا ہوتا ہے یعنی مصرع پورا کرنا ہوتا ہے میں دریا کی گہرائی تک جاتا ہوں میں نے کون سا پار اترنا ہوتا ہے اپنے آنسو آپ ہی رونا ہوتے ہیں اپنا گھاؤ آپ ہی بھرنا ہوتا ہے اس صحرا کو پنچھی پوجنے آتے ہیں جس صحرا کے دل میں جھرنا ہوتا ہے ہم تو زمیں پر رینگنے والے کیڑے ...

    مزید پڑھیے

    احتیاطاً اسے چھوا نہیں ہے

    احتیاطاً اسے چھوا نہیں ہے آدمی ہے کوئی خدا نہیں ہے دشت میں آتے جاتے رہتے ہیں یہ ہمارے لیے نیا نہیں ہے تم سمجھتے ہو ناخدا خود کو تم پہ دریا ابھی کھلا نہیں ہے جس کا حل سوچنے میں وقت لگے وہ محبت ہے مسئلہ نہیں ہے باغ پر شعر کہنے والوں کا ایک مصرع ہرا بھرا نہیں ہے ریت ہی ریت ہے تہہ ...

    مزید پڑھیے

    زخم اب تک وہی سینے میں لیے پھرتا ہوں

    زخم اب تک وہی سینے میں لیے پھرتا ہوں کوفے والوں کو مدینے میں لیے پھرتا ہوں جانے کب کس کی ضرورت مجھے پڑ جائے کہاں آگ اور خاک سفینے میں لیے پھرتا ہوں ریت کی طرح پھسلتے ہیں مری آنکھوں سے خواب ایسے بھی خزینے میں لیے پھرتا ہوں ایک ناکام محبت مرا سرمایہ ہے اور کیا خاک دفینے میں لیے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2