Imdad Imam Asar

امداد امام اثرؔ

اپنی رجحان ساز تنقیدی کتاب "کاشف الحقائق" کے لیے مشہور

Famous for his trend setting book on criticism, 'Kaashif-ul-Haqaaiq'.

امداد امام اثرؔ کی غزل

    جفائیں ہوتی ہیں گھٹتا ہے دم ایسا بھی ہوتا ہے

    جفائیں ہوتی ہیں گھٹتا ہے دم ایسا بھی ہوتا ہے مگر ہم پر جو ہے تیرا ستم ایسا بھی ہوتا ہے عدو کے آتے ہی رونق سدھاری تیری محفل کی معاذ اللہ انساں کا قدم ایسا بھی ہوتا ہے رکاوٹ ہے خلش ہے چھیڑ ہے ایذا پہ ایذا ہے ستم اہل وفا پر دم بدم ایسا بھی ہوتا ہے حسینوں کی جفائیں بھی تلون سے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    غم نہیں مجھ کو جو وقت امتحاں مارا گیا

    غم نہیں مجھ کو جو وقت امتحاں مارا گیا خوش ہوں تیرے ہاتھ سے اے جان جاں مارا گیا تیغ ابرو سے دل عاشق کو ملتی کیا پناہ جو چڑھا منہ پر اجل کے بے گماں مارا گیا منزل معشوق تک پہنچا سلامت کب کوئی رہزنوں سے کارواں کا کارواں مارا گیا دوستی کی تم نے دشمن سے عجب تم دوست ہو میں تمہاری دوستی ...

    مزید پڑھیے

    سولی چڑھے جو یار کے قد پر فدا نہ ہو

    سولی چڑھے جو یار کے قد پر فدا نہ ہو پھانسی چڑھے جو قیدی زلف رسا نہ ہو مضموں وہ کیا جو لذت غم سے بھرا نہ ہو شاعر وہ کیا کلام میں جس کے مزا نہ ہو بد نام میرے واسطے وہ دل ربا نہ ہو یارب عدو کے ہاتھ سے میری قضا نہ ہو جب اپنی کوئی بات بغیر از دعا نہ ہو دشمن کے کہنے سننے سے ناداں خفا نہ ...

    مزید پڑھیے

    صبح دم روتی جو تیری بزم سے جاتی ہے شمع

    صبح دم روتی جو تیری بزم سے جاتی ہے شمع صاف میرے سوز غم کا رنگ دکھلاتی ہے شمع جس طرح کالے کے من کے روبرو گل ہو چراغ دیکھ کر تعویذ زلف یار بجھ جاتی ہے شمع صرف پروانہ ادب سے دم بخود رہتا نہیں تیرے رعب حسن سے محفل میں تھراتی ہے شمع گھیر لیتے ہیں تجھے پروانے اس کو چھوڑ کر جس میں تو ہو ...

    مزید پڑھیے

    کیوں دیکھیے نہ حسن خداداد کی طرف

    کیوں دیکھیے نہ حسن خداداد کی طرف لازم نظر ہے گلشن ایجاد کی طرف پائے جو تیرے گوشۂ دستار کی ہوا قمری اڑی نہ طرۂ شمشاد کی طرف بے اصل اے فلک نظر آتا ہے تو مجھے کرتا ہوں غور جب تری بنیاد کی طرف گلشن میں کون بلبل نالاں کو دے پناہ گلچیں و باغباں بھی ہیں صیاد کی طرف مظلوم ہوں مگر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کب غیر ہوا محو تری جلوہ گری کا

    کب غیر ہوا محو تری جلوہ گری کا تو پوچھ مرے دل سے مزہ بے خبری کا سودا جو گل و لالہ کو ہے جیب دری کا ادنیٰ یہ شگوفہ ہے نسیم سحری کا کس نے لب بام آ کے دکھایا رخ روشن خورشید میں ہے رنگ چراغ سحری کا اپنی یہ غزل ہے کہ پرستان سخن ہے پرواز مضامیں میں ہے انداز پری کا کچھ کم نہیں نازک مرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3