جس کو چاہو تم اس کو بھر دو
جس کو چاہو تم اس کو بھر دو ماہ کو نقرہ مہر کو زر دو پیر مغاں سے عرض یہ کر دو دکھن بخشو اگر ساغر دو آہ یہ دونوں آفت جاں ہیں ناز و ادا لعنت بر ہر دو جی جلتا ہے آہ کے جھونکو شمع محبت کو گل کر دو قطرہ فشانی کیا اے آنکھو ایسے برسو جل تھل بھر دو بلبلو صیاد آج خفا ہے حلق چھری کے نیچے دھر ...