Ikram Mujeeb

اکرام مجیب

اکرام مجیب کی غزل

    یہ کمال بھی تو کم نہیں ترا

    یہ کمال بھی تو کم نہیں ترا ہر کسی نے کر لیا یقیں ترا انتظار کر رہے ہیں دیر سے اس اداس شہر کے مکیں ترا ان دنوں پڑاؤ کس جگہ پہ ہے آج کل ہے کون ہم نشیں ترا ہر زبان پر سوال ہے یہی ایک میں ہی پوچھتا نہیں ترا یہ نئی اڑان اس زمین سے رابطہ نہ توڑ دے کہیں ترا

    مزید پڑھیے

    زہر میں بجھے سارے تیر ہیں کمانوں پر

    زہر میں بجھے سارے تیر ہیں کمانوں پر موت آن بیٹھی ہے جا بجا مچانوں پر ہم برائی کرتے ہیں ڈوبتے ہوئے دن کی تہمتیں لگاتے ہیں جا چکے زمانوں پر اس حسین منظر سے دکھ کئی ابھرنے ہیں دھوپ جب اترنی ہے برف کے مکانوں پر شوق خود نمائی کا انتہا کو پہنچا ہے شہرتوں کی خاطر ہم سج گئے دکانوں ...

    مزید پڑھیے

    موت سی خموشی جب ان لبوں پہ طاری کی

    موت سی خموشی جب ان لبوں پہ طاری کی تب کہیں نبھا پائی رسم رازداری کی ہم ابھی ندامت کی قید سے نہیں نکلے کاٹتے ہیں روز و شب فصل بے قراری کی بھول ہی نہیں سکتے اے غم جہاں تو نے جس طرح پذیرائی عمر بھر ہماری کی کم ذرا نہ ہونے دی ایک لفظ کی حرمت ایک عہد کی ساری عمر پاسداری کی سب انا ...

    مزید پڑھیے

    اور ہی کہیں ٹھہرے اور ہی کہیں پہنچے

    اور ہی کہیں ٹھہرے اور ہی کہیں پہنچے جس جگہ پہنچنا تھا ہم وہاں نہیں پہنچے ہجر کی مسافت میں ساتھ تو رہا ہر دم دور ہو گئے تجھ سے جب ترے قریں پہنچے طائر طلب کی ہے ہر اڑان اس در تک نا مراد دل کا ہر راستہ وہیں پہنچے رخ کرے ادھر کا ہی ہر عذاب دنیا کا آسماں سے جو اترے وہ بلا یہیں ...

    مزید پڑھیے

    اے خدا بھرم رکھنا برقرار اس گھر کا

    اے خدا بھرم رکھنا برقرار اس گھر کا ہے ترے کرم پر ہی انحصار اس گھر کا ہر کواڑ ڈوبا ہے بے کراں اداسی میں اور ہر دریچہ ہی سوگوار اس گھر کا پھیلتی چلی جائے بیل بدگمانی کی ختم ہی نہیں ہوتا انتشار اس گھر کا اس جہاں میں ہوگا بے عمل نہ ہم جیسا ہم نہ رکھ سکے قائم اعتبار اس گھر کا کس قدر ...

    مزید پڑھیے