Iftikhar Shafi

افتخار شفیع

افتخار شفیع کی غزل

    سب طرح کے حالات کو امکان میں رکھا

    سب طرح کے حالات کو امکان میں رکھا ہر لمحہ اسے سوچ میں وجدان میں رکھا ہجرت کی گھڑی ہم نے ترے خط کے علاوہ بوسیدہ کتابوں کو بھی سامان میں رکھا مجھ کو مری قامت کے مطابق بھی جگہ دی یہ پھول اٹھا کر کبھی گلدان میں رکھا؟ اک عمر گزاری نئے آہنگ سے لیکن اجداد کی اقدار کو بھی دھیان میں ...

    مزید پڑھیے

    جز قربت جاں پردۂ جاں کوئی نہیں تھا

    جز قربت جاں پردۂ جاں کوئی نہیں تھا وہ تھا تو وہاں اور جہاں کوئی نہیں تھا تھا ایک خیال اور خیال رخ جاناں وہ واہمۂ وہم و گماں کوئی نہیں تھا اک ساعت صد سال میں ٹھہرا تھا کہیں دل پھر قافلۂ عمر رواں کوئی نہیں تھا تھا کوئی وہاں جو ہے یہاں بھی ہے وہاں بھی جو ہوں میں یہاں ہوں میں وہاں ...

    مزید پڑھیے