Ibn-e-Ummeed

ابن امید

ابن امید کی غزل

    بندہ پتلا خطا کا ہوتا ہے

    بندہ پتلا خطا کا ہوتا ہے مسئلہ تو انا کا ہوتا ہے وہی مستول ڈھیلا کرتے ہیں جن پہ تکیہ بلا کا ہوتا ہے ہم یونہی خواب بنتے رہتے ہیں کھیل سارا قضا کا ہوتا ہے سوختہ تن کی راکھ پر شاید ظلم باقی ہوا کا ہوتا ہے جس کو شبنم ملے نہ حصے کی پھول وہ ادھ کھلا سا ہوتا ہے

    مزید پڑھیے

    جو جنوں تھا سو وہ اب نہیں

    جو جنوں تھا سو وہ اب نہیں مجھے اب تمہاری طلب نہیں تجھے کیا خبر مرے حال کی جو کہا تجھے وہی سب نہیں یہ الگ کہ تجھ کو صدا نہ دیں ہمیں یاد ورنہ تو کب نہیں میں خوشی میں گھر کے اداس ہوں کوئی اور اس کا سبب نہیں

    مزید پڑھیے

    ہنسنا آہ و فغاں سے سیکھا ہے

    ہنسنا آہ و فغاں سے سیکھا ہے یہ ہنر بھی جہاں سے سیکھا ہے ہر خوشی سے نظر چرا لینا اک عجب مہرباں سے سیکھا ہے دوڑ سے خود کو یوں الگ رکھنا منزل بے نشاں سے سیکھا ہے سب سے کہنا خوشی کے آنسو ہیں یہ بھرم آستاں سے سیکھا ہے ایسے خود کو اذیتیں دینا تو نے فرخؔ کہاں سے سیکھا ہے

    مزید پڑھیے

    بن کے حسرت سما گیا اک شخص

    بن کے حسرت سما گیا اک شخص مجھ کو آنسو بنا گیا اک شخص سوچ ہالے پہ انتظار لکھا اور رستے دکھا گیا اک شخص میرے جیون کی ڈائری میں لکھا باب قسمت مٹا گیا اک شخص کربلا میں ہے روزگار الم کام کیسا لگا گیا اک شخص میں نے اس سے وفا کا ذکر کیا پر برا کیوں منا گیا اک شخص کر کے جیون سے بے نیاز ...

    مزید پڑھیے

    جسم کے خول میں اک شہر انا رکھا ہے

    جسم کے خول میں اک شہر انا رکھا ہے نام جیون کا تبھی ہم نے سزا رکھا ہے ہم مکینوں کو نہیں کوئی خوشی سے مطلب فیصلہ شہر کے والی نے سنا رکھا ہے خوشیاں جا بیٹھیں کہیں اونچی سی اک ٹہنی پر دل کے بہلانے کو اک لفظ قضا رکھا ہے آنکھوں میں خواب چبھن سونے نہیں دیتی ہے ایک مدت سے ہمیں تو نے جگا ...

    مزید پڑھیے