Hussain Majid

حسین ماجد

حسین ماجد کی غزل

    لوگوں نے آکاش سے اونچا جا کر تمغے پائے

    لوگوں نے آکاش سے اونچا جا کر تمغے پائے ہم نے اپنا انتر کھوجا دیوانے کہلائے کیسے سپنے کس کی آشا کب سے ہیں مہمان بنے تنہائی کے سونے آنگن میں یادوں کے سائے آنکھوں میں جو آج کسی کے بدلی بن کے جھوم اٹھی ہے کیا اچھا ہو ایسی برسے سب جل تھل ہو جائے دھول بنے یہ بات الگ ہے ورنہ اک دن ہوتے ...

    مزید پڑھیے

    شام چھت پر اتر گئی ہوگی

    شام چھت پر اتر گئی ہوگی درد سینے میں بھر گئی ہوگی خواب آنکھوں میں اب نئے ہوں گے زندگی بھی سنور گئی ہوگی میں تو کب سے اداس بیٹھا ہوں زندگی کس کے گھر گئی ہوگی ایک خوشبو تھی ساتھ میں اپنے کون ڈھونڈے کدھر گئی ہوگی اس کا چہرہ اداس ہے ماجدؔ آئینے پر نظر گئی ہوگی

    مزید پڑھیے

    طوفاں کوئی نظر میں نہ دریا ابال پر

    طوفاں کوئی نظر میں نہ دریا ابال پر وہ کون تھے جو بہہ گئے پربت کی ڈھال پر کرنے چلی تھی عقل جنوں سے مباحثے پتھر کے بت میں ڈھل گئی پہلے سوال پر میرا خیال ہے کہ اسے بھی نہیں ثبات جاں دے رہا ہے سارا جہاں جس جمال پر لے چل کہیں بھی آرزو لیکن زبان دے ہرگز نہ خون روئے گی اپنے مآل پر ایسے ...

    مزید پڑھیے

    دھول بھری آندھی میں سب کو چہرہ روشن رکھنا ہے

    دھول بھری آندھی میں سب کو چہرہ روشن رکھنا ہے بستی پیچھے رہ جائے گی آگے آگے صحرا ہے ایک ذرا سی بات پہ اس نے دل کا رشتہ توڑ دیا ہم نے جس کا تنہائی میں برسوں رستہ دیکھا ہے پیار محبت آہ و زاری لفظوں کی تصویریں ہیں کس کے پیچھے بھاگ رہے ہو دریا بہتا رہتا ہے پھول پرندے خوشبو بادل سب اس ...

    مزید پڑھیے