حیا لکھنوی کی غزل

    نہ ہوتی حال دل کہنے کی گر ہمت تو اچھا تھا

    نہ ہوتی حال دل کہنے کی گر ہمت تو اچھا تھا نہ سنتے کاش وہ شرح غم الفت تو اچھا تھا مری بیتابیٔ دل بڑھ گئی ہے الاماں کتنی نکلتی گر نہ شوق دید کی حسرت تو اچھا تھا وہ راحت بیزیاں ثابت ہوئی کتنی حباب آسا کبھی ہوتا نہ اتمام شب فرقت تو اچھا تھا ہوا کیوں التفات ان کا بڑھا کیوں حوصلہ ...

    مزید پڑھیے

    شوق کہتا ہے کہ چلیے کوئے جاناں کی طرف (ردیف .. ن)

    شوق کہتا ہے کہ چلیے کوئے جاناں کی طرف چاہیئے وارفتگی کی پاسداری ان دنوں پھر بہار آئی ہے جی امڈا ہے یاد دوست میں دل کرے زاری اور آنکھیں اشک باری ان دنوں آہ یہ برسات کا موسم یہ زخموں کی بہار ہو گیا ہے خون دل آنکھوں سے جاری ان دنوں کیا تقاضا کیجیے ان سے نگاہ لطف کا بے نیازی ہے وہاں ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ شوق اگر دل کی ترجماں ہو جائے

    نگاہ شوق اگر دل کی ترجماں ہو جائے تو ذرہ ذرہ محبت کا راز داں ہو جائے پھر اس کے رنج و غم و داغ کی حد ہے کوئی جو اس جہاں میں گھڑی بھر کو شادماں ہو جائے کسی سے کیا گلۂ جور آسماں کیجے کہ جس زمیں پہ رہیں ہم وہ آسماں ہو جائے حیاؔ ٹھکانا بھی کچھ ایسی درد مندی کا کہ لب تک آئے نہ اک حرف ...

    مزید پڑھیے

    چمن وہی ہے گھٹائیں وہی بہار وہی

    چمن وہی ہے گھٹائیں وہی بہار وہی مگر گلوں میں وہ اب رنگ و بو نہیں باقی ہے دلکشی میں وہی اب بھی موسموں کی بہار نظر میں کیفیت رنگ و بو نہیں باقی شباب دہر کی اب بھی ہے وہ فراوانی مگر خیال میں جوش نمو نہیں باقی ہے دل میں درد بھی پہلو میں دل بھی ہے لیکن کسی کے درد پہ رونے کی خو نہیں ...

    مزید پڑھیے