نگاہیں جھک گئیں آیا شباب آہستہ آہستہ
نگاہیں جھک گئیں آیا شباب آہستہ آہستہ پڑا آنکھوں پہ پلکوں کا حجاب آہستہ آہستہ سوالی بن کے جب مشتاق نظریں پڑ گئیں ان پر نگاہوں نے دیا ان کی جواب آہستہ آہستہ کبھی اشکوں کے طوفاں میں کبھی مژگاں سے داماں میں لہو کا دل بہا یوں بے حساب آہستہ آہستہ اسی امید پر تو جی رہے ہیں ہجر کے ...