حسیب سوز کی غزل

    ہمارے دوستوں میں کوئی دشمن ہو بھی سکتا ہے

    ہمارے دوستوں میں کوئی دشمن ہو بھی سکتا ہے یہ انگریزی دوائیں ہیں ری ایکشن ہو بھی سکتا ہے کسی ماتھے پہ ہر دم ایک ہی لیبل نہیں رہتا بھکاری چند ہفتوں میں مہاجن ہو بھی سکتا ہے سیاست نقلی نوٹوں کی طرح دھوکے سے چلتی ہے جسے رہبر سمجھتے ہو وہ رہزن ہو بھی سکتا ہے مرے بچوں کہاں تک باپ کے ...

    مزید پڑھیے

    خود کو اتنا جو ہوا دار سمجھ رکھا ہے

    خود کو اتنا جو ہوا دار سمجھ رکھا ہے کیا ہمیں ریت کی دیوار سمجھ رکھا ہے ہم نے کردار کو کپڑوں کی طرح پہنا ہے تم نے کپڑوں ہی کو کردار سمجھ رکھا ہے میری سنجیدہ طبیعت پہ بھی شک ہے سب کو بعض لوگوں نے تو بیمار سمجھ رکھا ہے اس کو خود داری کا کیا پاٹھ پڑھایا جائے بھیک کو جس نے پرسکار سمجھ ...

    مزید پڑھیے

    اب اسے چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتے ہم

    اب اسے چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتے ہم اور گھر اتنا پرانا بھی نہیں چاہتے ہم سر بھی محفوظ اسی میں ہے ہمارا لیکن کیا کریں سر کو جھکانا بھی نہیں چاہتے ہم اپنی غیرت کے لئے فاقہ کشی بھی منظور تیری شرطوں پہ خزانہ بھی نہیں چاہتے ہم ہاتھ اور پاؤں کسی کے ہوں کسی کا سر ہو اس طرح قد کو ...

    مزید پڑھیے

    یہاں مضبوط سے مضبوط لوہا ٹوٹ جاتا ہے

    یہاں مضبوط سے مضبوط لوہا ٹوٹ جاتا ہے کئی جھوٹے اکٹھے ہوں تو سچا ٹوٹ جاتا ہے نہ اتنا شور کر ظالم ہمارے ٹوٹ جانے پر کہ گردش میں فلک سے بھی ستارا ٹوٹ جاتا ہے تسلی دینے والے تو تسلی دیتے رہتے ہیں مگر وہ کیا کرے جس کا بھروسا ٹوٹ جاتا ہے کسی سے عشق کرتے ہو تو پھر خاموش رہیے گا ذرا سی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2