Hakeem Nasir

حکیم ناصر

حکیم ناصر کی غزل

    جب بھی جلے گی شمع تو پروانہ آئے گا

    جب بھی جلے گی شمع تو پروانہ آئے گا دیوانہ لے کے جان کا نذرانہ آئے گا تجھ کو بھلا کے لوں گا میں خود سے بھی انتقام جب میرے ہاتھ میں کوئی پیمانہ آئے گا آسان کس قدر ہے سمجھ لو مرا پتہ بستی کے بعد پہلا جو ویرانہ آئے گا اس کی گلی میں سر کی بھی لازم ہے احتیاط پتھر اٹھا کے ہاتھ میں ...

    مزید پڑھیے

    کبھی وہ ہاتھ نہ آیا ہواؤں جیسا ہے

    کبھی وہ ہاتھ نہ آیا ہواؤں جیسا ہے وہ ایک شخص جو سچ مچ خداؤں جیسا ہے ہماری شمع تمنا بھی جل کے خاک ہوئی ہمارے شعلوں کا عالم چتاؤں جیسا ہے وہ بس گیا ہے جو آ کر ہماری سانسوں میں جبھی تو لہجہ ہمارا دعاؤں جیسا ہے تمہارے بعد اجالے بھی ہو گئے رخصت ہمارے شہر کا منظر بھی گاؤں جیسا ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    اس راہ محبت میں تو آزار ملے ہیں

    اس راہ محبت میں تو آزار ملے ہیں پھولوں کی تمنا تھی مگر خار ملے ہیں انمول جو انساں تھا وہ کوڑی میں بکا ہے دنیا کے کئی ایسے بھی بازار ملے ہیں جس نے بھی مجھے دیکھا ہے پتھر سے نوازا وہ کون ہیں پھولوں کے جنہیں ہار ملے ہیں مالک یہ دیا آج ہواؤں سے بچانا موسم ہے عجب آندھی کے آثار ملے ...

    مزید پڑھیے

    عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی

    عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی اس قدر الجھن میں پہلے زندگی دیکھی نہ تھی یہ تماشا بھی عجب ہے ان کے اٹھ جانے کے بعد میں نے دن میں اس سے پہلے تیرگی دیکھی نہ تھی آپ کیا آئے کہ رخصت سب اندھیرے ہو گئے اس قدر گھر میں کبھی بھی روشنی دیکھی نہ تھی آپ سے آنکھیں ملی تھیں پھر نہ جانے ...

    مزید پڑھیے

    مےکشی گردش ایام سے آگے نہ بڑھی

    مےکشی گردش ایام سے آگے نہ بڑھی میری مدہوشی مرے جام سے آگے نہ بڑھی دل کی حسرت دل ناکام سے آگے نہ بڑھی زندگی موت کے پیغام سے آگے نہ بڑھی وہ گئے گھر کے چراغوں کو بجھا کر میرے پھر ملاقات مری شام سے آگے نہ بڑھی رہ گئی گھٹ کے تمنا یوں ہی دل میں اے دوست گفتگو اپنی ترے نام سے آگے نہ ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں نے حال کہہ دیا ہونٹ نہ پھر ہلا سکے

    آنکھوں نے حال کہہ دیا ہونٹ نہ پھر ہلا سکے دل میں ہزار زخم تھے جو نہ انہیں دکھا سکے گھر میں جو اک چراغ تھا تم نے اسے بجھا دیا کوئی کبھی چراغ ہم گھر میں نہ پھر جلا سکے شکوہ نہیں ہے عرض ہے ممکن اگر ہو آپ سے دیجے مجھ کو غم ضرور دل جو مرا اٹھا سکے وقت قریب آ گیا حال عجیب ہو گیا ایسے میں ...

    مزید پڑھیے

    اے دوست کہیں تجھ پہ بھی الزام نہ آئے

    اے دوست کہیں تجھ پہ بھی الزام نہ آئے اس میری تباہی میں ترا نام نہ آئے یہ درد ہے ہمدم اسی ظالم کی نشانی دے مجھ کو دوا ایسی کہ آرام نہ آئے کاندھے پہ اٹھائے ہیں ستم راہ وفا کے شکوہ مجھے تم سے ہے کہ دو گام نہ آئے لگتا ہے کہ پھیلے گی شب غم کی سیاہی آنسو مری پلکوں پہ سر شام نہ آئے میں ...

    مزید پڑھیے

    ہائے وہ وقت جدائی کے ہمارے آنسو

    ہائے وہ وقت جدائی کے ہمارے آنسو گر کے دامن پہ بنے تھے جو ستارے آنسو لعل و گوہر کے خزانے ہیں یہ سارے آنسو کوئی آنکھوں سے چرا لے نہ تمہارے آنسو ان کی آنکھوں میں جو آئیں تو ستارے آنسو میری آنکھوں میں اگر ہوں تو بچارے آنسو دامن صبر بھی ہاتھوں سے مرے چھوٹ گیا اب تو آ پہنچے ہیں پلکوں ...

    مزید پڑھیے

    جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے

    جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے اس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہوگی نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے پتھرو آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے اب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے تو نے کیا مجھ کو محبت میں بنا ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد

    زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد حوصلہ دینا انہیں میرے خدا میرے بعد کون گھونگھٹ کو اٹھائے گا ستم گر کہہ کے اور پھر کس سے کریں گے وہ حیا میرے بعد پھر محبت کی زمانے میں نہ پرسش ہوگی روئے گی سسکیاں لے لے کے وفا میرے بعد ہاتھ اٹھتے ہوئے ان کے نہ کوئی دیکھے گا کس کے آنے کی کریں گے ...

    مزید پڑھیے