Haidar Qureshi

حیدر قریشی

پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف افسانہ نگار، مصنف اور صحافی۔

Noted story writer from Pakistan.

حیدر قریشی کی غزل

    اس دربار میں لازم تھا اپنے سر کو خم کرتے

    اس دربار میں لازم تھا اپنے سر کو خم کرتے ورنہ کم از کم اپنی آواز ہی مدھم کرتے اس کی انا تسکین نہیں پاتی خالی لفظوں سے شاید کچھ ہو جاتا اثر تم گریۂ پیہم کرتے سیکھ لیا ہے آخر ہم نے عشق میں خوش خوش رہنا درد کو اپنی دوا بناتے زخم کو مرہم کرتے کام ہمارے حصے کے سب کر گیا تھا دوانہ کون ...

    مزید پڑھیے

    عجیب کرب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں

    عجیب کرب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں سسکتی پیاس لبوں پر فرات آنکھوں میں تمہیں تو گردش دوراں نے روند ڈالا ہے رہی نہ کوئی بھی پہلی سی بات آنکھوں میں قطار وار ستاروں کی جگمگاہٹ سے سجا کے لائے ہیں غم کی برات آنکھوں میں پھر اس کو دامن دل میں کہاں کہاں رکھیں سمیٹ سکتے ہیں جو کائنات ...

    مزید پڑھیے

    لفظ تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں

    لفظ تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں سارے منظر آئنوں سے خود مٹا کر آئے ہیں جل چکے ساری مہکتی خواہشوں کے جب گلاب موسموں کے دکھ نگاہوں میں جلا کر آئے ہیں ایک لمحے میں کئی صدیوں کے ناطے توڑ کر سوچتے ہیں اپنے ہاتھوں سے یہ کیا کر آئے ہیں راستے تو کھو چکے تھے اپنی ہر پہچان تک ہم جنازے ...

    مزید پڑھیے

    میرے اس کے درمیاں جو فاصلہ رکھا گیا

    میرے اس کے درمیاں جو فاصلہ رکھا گیا اس کے طے کرنے کو بھی اک راستہ رکھا گیا عکس کھو جائیں اگر ہلکا سا کنکر بھی گرے پانیوں میں ایک ایسا آئنا رکھا گیا سب تقاضے ویسے پورے ہو گئے انصاف کے بس فقط محفوظ میرا فیصلہ رکھا گیا نارسائی کی اذیت ہی رہی اپنا نصیب مل گئی روحیں تو جسموں کو جدا ...

    مزید پڑھیے

    دلوں میں دشمنوں کے اس طرح ڈر بول اٹھتے ہیں

    دلوں میں دشمنوں کے اس طرح ڈر بول اٹھتے ہیں گواہی کو چھپاتے ہیں تو منظر بول اٹھتے ہیں مری سچائی میری بے گناہی سب پہ ظاہر ہے کہ اب جنگل کنویں صحرا سمندر بول اٹھتے ہیں وہ پتھر دل سہی لیکن ہمارا بھی یہ دعویٰ ہے ہمارے لب جنہیں چھو لیں وہ پتھر بول اٹھتے ہیں بدل جاتے ہیں اک لمحے میں ...

    مزید پڑھیے

    آپ لوگوں کے کہے پر ہی اکھڑ جاتے ہیں

    آپ لوگوں کے کہے پر ہی اکھڑ جاتے ہیں لوگ تو جھوٹ بھی سو طرح کے گھڑ جاتے ہیں آنکھ کس طرح کھلے میری کہ میں جانتا ہوں آنکھ کھلتے ہی سبھی خواب اجڑ جاتے ہیں غم تمہارا نہیں جاناں ہمیں دکھ اپنا ہے تم بچھڑتے ہو تو ہم خود سے بچھڑ جاتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ تقدیر اٹل ہوتی ہے ہم نے دیکھا ہے ...

    مزید پڑھیے

    فصل غم کی جب نوخیزی ہو جاتی ہے

    فصل غم کی جب نوخیزی ہو جاتی ہے درد کی موجوں میں بھی تیزی ہو جاتی ہے پانی میں بھی چاند ستارے اگ آتے ہیں آنکھ سے دل تک وہ زرخیزی ہو جاتی ہے اندر کے جنگل سے آ جاتی ہیں یادیں اور فضا میں صندل بیزی ہو جاتی ہے خوشیاں غم میں بالکل گھل مل سی جاتی ہیں اور نشاط میں غم انگیزی ہو جاتی ...

    مزید پڑھیے

    اک خواب کہ جو آنکھ بھگونے کے لیے ہے

    اک خواب کہ جو آنکھ بھگونے کے لیے ہے اک یاد کہ سینے میں چبھونے کے لیے ہے اک زخم کہ سب زخم بھلا ڈالے ہیں جس نے اک غم کہ جو تا عمر بھلانے کے لیے ہے اک روح کہ سونا ہے مگر میل بھری بھی اک آگ اسی میل کو دھونے کے لیے ہے آنکھوں میں ابھی دھول سی لمحوں کی جمی ہے دل میں کوئی سیلاب سا رونے کے ...

    مزید پڑھیے

    اندر کی دنیائیں ملا کے ایک نگر ہو جائیں

    اندر کی دنیائیں ملا کے ایک نگر ہو جائیں یا پھر آؤ مل کر ٹوٹیں اور کھنڈر ہو جائیں ایک نام پڑھیں یوں دونوں اور دعا یوں مانگیں یا سجدے سے سر نہ اٹھیں یا لفظ اثر ہو جائیں خیر اور شر کی آمیزش اور آویزش سے نکھریں بھول اور توبہ کرتے سارے سانس بسر ہو جائیں ہم ازلی آوارہ جن کا گھر ہی ...

    مزید پڑھیے

    اب کے اس نے کمال کر ڈالا

    اب کے اس نے کمال کر ڈالا اک خوشی سے نڈھال کر ڈالا چاند بن کر چمکنے والے نے مجھ کو سورج مثال کر ڈالا پہلے غم سے نہال کرتا تھا اب خوشی سے نہال کر ڈالا اک حقیقت کے روپ میں آ کر مجھ کو خواب و خیال کر ڈالا دکھ بھرے دل سے دکھ ہی چھین لیے اور جینا وبال کر ڈالا ایک خوش خط سے شخص نے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2