Hadi Machlishahri

ہادی مچھلی شہری

ہادی مچھلی شہری کی غزل

    اٹھنے کو تو اٹھا ہوں محفل سے تری لیکن

    اٹھنے کو تو اٹھا ہوں محفل سے تری لیکن اب دل کو یہ دھڑکا ہے جاؤں تو کدھر جاؤں مرنا مری قسمت ہے مرنے سے نہیں ڈرتا پیمانۂ ہستی کو لبریز تو کر جاؤں تو اور مری ہستی میں اس طرح سما جائے میں اور تری نظروں سے اس طرح اتر جاؤں دنیائے محبت میں دشوار جو جینا ہے مر کر ہی سہی آخر کچھ کام تو کر ...

    مزید پڑھیے

    کھویا ہوا سا رہتا ہوں اکثر میں عشق میں

    کھویا ہوا سا رہتا ہوں اکثر میں عشق میں یا یوں کہو کہ ہوش میں آنے لگا ہوں میں یہ ابتدائے شوق کی حالت نہ ہو کہیں محفل میں اس سے آنکھ چرانے لگا ہوں میں اب کیوں گلہ رہے گا مجھے ہجر یار کا بے تابیوں سے لطف اٹھانے لگا ہوں میں

    مزید پڑھیے

    ہزار خاک کے ذروں میں مل گیا ہوں میں

    ہزار خاک کے ذروں میں مل گیا ہوں میں مآل شوق ہوں آئینہ وفا ہوں میں کہاں یہ وسعت جلوہ کہاں یہ دیدۂ تنگ کبھی تجھے کبھی اپنے کو دیکھتا ہوں میں شہید عشق کے جلوے کی انتہا ہی نہیں ہزار رنگ سے عالم میں رونما ہوں میں مرا وجود حقیقت مرا عدم دھوکا فنا کی شکل میں سرچشمۂ بقا ہوں میں ہے ...

    مزید پڑھیے

    اشک غم عقدہ کشائے خلش جاں نکلا

    اشک غم عقدہ کشائے خلش جاں نکلا جس کو دشوار میں سمجھا تھا وہ آساں نکلا کس قدر دست جنوں بے سروساماں نکلا تجھ میں اک تار نہ اے چاک گریباں نکلا اف وہ تقدیر جو تدبیر کی پابند رہی حیف وہ درد جو منت کش درماں نکلا خاک ہو کر بھی رہا جلوہ طرازی کا دماغ میرا ہر ذرۂ دل طور بداماں ...

    مزید پڑھیے

    نظام طبیعت سے گھبرا گیا دل (ردیف .. ن)

    نظام طبیعت سے گھبرا گیا دل طبیعت کی اب برہمی چاہتا ہوں مری بیقراری سے خوش ہونے والے نہ خوش کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں جفا کو بھی تیری جو شرمندہ کر دے وہ مظلوم میں زندگی چاہتا ہوں غضب ہے یہ احساس وارستگی کا کہ تجھ سے بھی خود کو بری چاہتا ہوں سر دار منصور کو تھی جو حاصل میں ہادیؔ ...

    مزید پڑھیے

    محو کمال آرزو مجھ کو بنا کے بھول جا

    محو کمال آرزو مجھ کو بنا کے بھول جا اپنے حریم ناز کا پردہ اٹھا کے بھول جا جلوہ ہے بے خودی طلب عشق ہے ہمت آزما دیدۂ مست یار سے آنکھ ملا کے بھول جا لطف جفا اسی میں ہے یاد جفا نہ آئے پھر تجھ کو ستم کا واسطہ مجھ کو مٹا کے بھول جا لوث طلب کے ننگ سے عشق کو بے نیاز رکھ ہو بھی جو کوئی آرزو ...

    مزید پڑھیے

    اس بے وفا کی بزم سے چشم خیال میں

    اس بے وفا کی بزم سے چشم خیال میں اک خواب آرزو کا لیے جا رہا ہوں میں دل کو نگاہ یار کے نشتر سے چھیڑ کر بیدار آرزو کو کیے جا رہا ہوں میں بے درد مجھ سے شرح غم زندگی نہ پوچھ کافی ہے اس قدر کہ جیے جا رہا ہوں میں دو دن کی عمر وہ بھی ملی تھی بقید غم یہ شکوہ ہر نفس میں کئے جا رہا ہوں میں

    مزید پڑھیے

    زباں پہ حرف شکایت ارے معاذ اللہ (ردیف .. م)

    زباں پہ حرف شکایت ارے معاذ اللہ مجھے ترے ستم صبر آزما کی قسم بس اک نگاہ کرم کا امیدوار ہوں میں جفا شعار تجھے میری التجا کی قسم تو ہے بہار تو دامن مرا ہو کیوں خالی اسے بھی بھر دے گلوں سے تجھے خدا کی قسم غضب کی چھیڑ ہے ہادیؔ یہ اور کیا کہیے وہ کھا رہے ہیں مرے ترک مدعا کی قسم

    مزید پڑھیے

    دیکھ کر شمع کے آغوش میں پروانے کو

    دیکھ کر شمع کے آغوش میں پروانے کو دل نے بھی چھیڑ دیا شوق کے افسانے کو ذرے ذرے سے گلستاں میں برستی ہے بہار کون ایسے میں سنبھالے ترے دیوانے کو طور نے جس سے حیات ابدی پائی ہے لاؤ دہراؤں میں پھر سے اسی افسانے کو دل سرشار مرا چشم سیہ مست تری جذبہ ٹکرا دے نہ پیمانے سے پیمانے کو صبح ...

    مزید پڑھیے

    میں کیا ہوں کون ہوں یہ بھی خبر نہیں مجھ کو (ردیف .. ن)

    میں کیا ہوں کون ہوں یہ بھی خبر نہیں مجھ کو وہ اس طرح مری ہستی پہ چھائے جاتے ہیں خیال ہی ابھی آیا تھا کوئے جاناں کا یہ حال ہے کہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں وہ پوچھتے ہیں دل مبتلا کا حال اور ہم جواب میں فقط آنسو بہائے جاتے ہیں کہاں ہے شوق بتا غیرت کشش تیری وہ میری خاک سے دامن بچائے جاتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2