Habeeb Ahmad Siddiqui

حبیب احمد صدیقی

  • 1908

حبیب احمد صدیقی کی غزل

    فیض پہنچے ہیں جو بہاروں سے

    فیض پہنچے ہیں جو بہاروں سے پوچھتے کیا ہو دل نگاروں سے آشیاں تو جلا مگر ہم کو کھیلنا آ گیا شراروں سے کیا ہوا یہ کہ خوں میں ڈوبی ہوئی لپٹیں آتی ہیں لالہ زاروں سے ان میں ہوتے ہیں قافلے پنہاں دل شکستہ نہ ہو غباروں سے ہے یہاں کوئی حوصلے والا کچھ پیام آئے ہیں ستاروں سے ہم سے مہر و ...

    مزید پڑھیے

    نوید آمد فصل بہار بھی تو نہیں

    نوید آمد فصل بہار بھی تو نہیں یہ بے دلی ہے کہ اب انتظار بھی تو نہیں جو بھول جائے کوئی شغل جام و مینا میں غم حبیب غم روزگار بھی تو نہیں مریض بادۂ عشرت یہ اک جہاں کیوں ہے سرور بادہ بقدر خمار بھی تو نہیں متاع صبر و سکوں جس نے دل سے چھین لیا وہ دل نواز ادا آشکار بھی تو نہیں قفس میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2