Habeeb Ahmad Siddiqui

حبیب احمد صدیقی

  • 1908

حبیب احمد صدیقی کی غزل

    جبیں نواز کسی کی فسوں گری کیوں ہے

    جبیں نواز کسی کی فسوں گری کیوں ہے سرشت حسن میں اس درجہ دل کشی کیوں ہے کسی کی سادہ جبیں کیوں بنی ہے سحر طراز کسی کی بات میں اعجاز عیسوی کیوں ہے کسی کی زلف معنبر میں کیوں ہے گیرائی فدائے گیسوئے مشکیں یہ زندگی کیوں ہے ترے شعار تغافل پہ زندگی قرباں ترے شعار تغافل میں دل کشی کیوں ...

    مزید پڑھیے

    وہ درد عشق جس کو حاصل ایماں بھی کہتے ہیں

    وہ درد عشق جس کو حاصل ایماں بھی کہتے ہیں سیہ بختوں میں اس کو گردش دوراں بھی کہتے ہیں جو آغوش حیا میں ایک دل آویز نشتر ہے اسی موج نظر کو گلشن خنداں بھی کہتے ہیں حجابات نظر جلووں کی بے باکی سے کیا اٹھیں محبت کی نظر کو دیدۂ حیراں بھی کہتے ہیں نہ کھلوائیں زباں اچھا یہی ہے حضرت ...

    مزید پڑھیے

    دنیا کو روشناس حقیقت نہ کر سکے

    دنیا کو روشناس حقیقت نہ کر سکے ہم جتنا چاہتے تھے محبت نہ کر سکے سامان گل فروشیٔ راحت نہ کر سکے راحت کو ہم شریک محبت نہ کر سکے یوں کثرت جمال نے لوٹی متاع دید تسکین تشنہ کامئ حیرت نہ کر سکے اب عشق خام کار ہی ارماں کو دے جواب ہم ان کو بیقرار محبت نہ کر سکے بے مہریوں سے کام رہا گو ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو دماغ شیون و آہ و فغاں نہیں

    مجھ کو دماغ شیون و آہ و فغاں نہیں اک آتش خموش ہوں جس میں دھواں نہیں کس سادگی سے کہتے ہو ہم رازداں نہیں وہ کون سا ہے راز جو تم پر عیاں نہیں وہ دشمن سکون دل و جاں یہی نہ ہو معصوم سی نگاہ کہ جس پر گماں نہیں ہے آگ سی لگی ہوئی رگ رگ میں کیا کہوں اک چشم انتظار ہی یاں خونچکاں نہیں یوں ...

    مزید پڑھیے

    نہ بیتابی نہ آشفتہ سری ہے

    نہ بیتابی نہ آشفتہ سری ہے ہماری زندگی کیا زندگی ہے فریب آرزو کھائیں تو کیوں کر تغافل ہے نہ بیگانہ وشی ہے فروغ عشق ہے محرومیوں سے وفا کیشی بہ قدر نا رسی ہے مرے قصر تمنا کی نگہباں نگاہ ناز کی بیگانگی ہے محبت کے سوا جادہ نہ منزل محبت کے سوا سب گمرہی ہے محبت میں شکایت کیا گلہ ...

    مزید پڑھیے

    کچھ بھی دشوار نہیں عزم جواں کے آگے

    کچھ بھی دشوار نہیں عزم جواں کے آگے آشیاں بنتے گئے برق تپاں کے آگے زندگی نغمۂ دلکش ہے مگر اے ناداں تو نے سیکھا ہی نہیں آہ و فغاں کے آگے قصۂ بزم طرب تذکرۂ موسم گل خوب ہیں یوں تو مگر سوختہ جاں کے آگے ہم ہیں اور فصل خزاں فصل خزاں ہے اور ہم ہم سے کیا پوچھتے ہو فصل خزاں کے آگے دسترس ...

    مزید پڑھیے

    اور اے چشم طرب بادۂ گلفام ابھی

    اور اے چشم طرب بادۂ گلفام ابھی دل ہے بیگانۂ اندیشۂ انجام ابھی بادہ و ساقی و مطرب کا نہ لو نام ابھی گرد آلود ہے آئینۂ ایام ابھی دل ہے مجروح پر و بال شکستہ ہمدم دام سے چھوٹ کے بھی ہوں میں تہہ دام ابھی معنی و مقصد ہستی کا سمجھنا معلوم عقل ہے صرف پرستارئ اوہام ابھی عشرت جلوۂ بیباک ...

    مزید پڑھیے

    ان نگاہوں کو عجب طرز کلام آتا ہے

    ان نگاہوں کو عجب طرز کلام آتا ہے ایسا لگتا ہے بہاروں کا پیام آتا ہے مرحلہ ہوتا ہے جب دار و رسن کا درپیش قرعۂ فال ہم ایسوں ہی کے نام آتا ہے اے مرے ناصح مشفق کبھی یہ بھی سوچا کون دنیا میں خوشی سے تہہ دام آتا ہے بادہ نوشی میں بھی ہے کیف سکوں بخش مگر ہائے وہ کیف جو بے منت جام آتا ...

    مزید پڑھیے

    خزاں نصیب کی حسرت بروئے کار نہ ہو

    خزاں نصیب کی حسرت بروئے کار نہ ہو بہار شعبدۂ چشم انتظار نہ ہو فریب خوردۂ الفت سے پوچھئے کیا ہے وہ ایک عہد محبت کہ استوار نہ ہو نظر کو تاب نظارہ نہ دل کو جرأت دید جمال یار سے یوں کوئی شرمسار نہ ہو قبا دریدہ و دامان و آستیں خونیں گلوں کے بھیس میں یہ کوئی دل فگار نہ ہو نہ ہو سکے ...

    مزید پڑھیے

    یہ غم نہیں ہے کہ اب آہ نارسا بھی نہیں

    یہ غم نہیں ہے کہ اب آہ نارسا بھی نہیں یہ کیا ہوا کہ مرے لب پہ التجا بھی نہیں ستم ہے اب بھی امید وفا پہ جیتا ہے وہ کم نصیب کہ شائستۂ جفا بھی نہیں نگاہ ناز عبارت ہے زندگی جس سے شریک درد تو کیا درد آشنا بھی نہیں سمجھ رہا ہوں امانت متاع صبر کو میں اگرچہ اب نگہ صبر آزما بھی نہیں وہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2