Gulzar Vafa Chaudhari

گلزار وفا چودھری

گلزار وفا چودھری کی غزل

    دھول نہ بننا آئینوں پر بار نہ ہونا

    دھول نہ بننا آئینوں پر بار نہ ہونا بینائی کے رستے کی دیوار نہ ہونا شہروں کا ورثہ ہیں جلتے بجھتے منظر رہنا لیکن ہم رنگ بازار نہ ہونا زہر ہوائیں پروا رنگوں میں چلتی ہیں سادہ کلیو ان کے لئے گلنار نہ ہونا ملنے کا کھلنے کا موسم دور نہیں ہے نخل ماتم اے میرے اشجار نہ ہونا میں نے چمن ...

    مزید پڑھیے

    پرانے پیڑ کو موسم نئی قبائیں دے

    پرانے پیڑ کو موسم نئی قبائیں دے گلوں میں دفن کرے ریشمی ردائیں دے شب وصال بھی منزل ہے میرے ذوق سفر مجھے وصال سے آگے کی انتہائی دے میں ایک دانۂ پامال تھا مگر اے خاک اب اگ رہا ہوں مرے تن کو بھی قبائیں دے فصیل شہر ستم سرخ ہوتی جاتی ہے امیر شہر ہمیں شوق سے سزائیں دے کریں مشاہدہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک میں ہوں اور لاکھ مسائل خدا گواہ

    ایک میں ہوں اور لاکھ مسائل خدا گواہ دست طلب ہے کاسۂ سائل خدا گواہ آنکھیں کھلیں تو اور ہی منظر تھا روبرو خود میں تھا اپنی راہ میں حائل خدا گواہ یہ کائنات رقص میں ہے اک مرے لئے پہنے ہوئے نجوم کی پائل خدا گواہ دل میں محبتیں ہیں تو آنکھوں میں حیرتیں میرے فقط یہی ہیں وسائل خدا ...

    مزید پڑھیے

    کون سی منزل ہے جو بے خواب آنکھوں میں نہیں

    کون سی منزل ہے جو بے خواب آنکھوں میں نہیں ایک سورج ڈھونڈھتا ہوں جو کہ سپنوں میں نہیں دیکھتا رہتا ہوں مٹتے شہر کے نقش و نگار آنکھ میں وہ صورتیں بھی ہیں کہ گلیوں میں نہیں موسموں کا رخ ادھر کو ہے ہواؤں کا ادھر جنگلوں میں بات کوئی ہے کہ شہروں میں نہیں پیلی پیلی تتلیاں ہیں اور ...

    مزید پڑھیے

    منتشر ہو کر رہے یہ ایسا شیرازہ نہ تھا

    منتشر ہو کر رہے یہ ایسا شیرازہ نہ تھا خاک ہو جانا مرے ہونے کا خمیازہ نہ تھا میں بطون ذات میں اور تو خلا میں گم رہا خاک کے جوہر کا ہم دونوں کو اندازہ نہ تھا آب پاشی سے رہے غافل شجرکاری کے بعد اب جو دیکھا ایک پودا بھی تر و تازہ نہ تھا ہم میں جو آزاد تھا آزاد تر ہو کر رہا اب وہی بے ...

    مزید پڑھیے

    بوسیدہ عمارات کو مسمار کیا ہے

    بوسیدہ عمارات کو مسمار کیا ہے ہم لوگوں نے ہر راہ کو ہموار کیا ہے یوں مرکزی کردار میں ہم ڈوبے ہیں جیسے خود ہم نے ڈرامے کا یہ کردار کیا ہے دیوار کی ہر خشت پہ لکھے ہیں مطالب یوں شہر کو آئینۂ اظہار کیا ہے بینائی مرے شہر میں اک جرم ہے لیکن ہر آنکھ کو رنگوں نے گرفتار کیا ہے درپیش ابد ...

    مزید پڑھیے

    تیز ہواؤ اب ڈرنا گھبرانا کیسا

    تیز ہواؤ اب ڈرنا گھبرانا کیسا چلنا ہی ٹھہرا تو شور مچانا کیسا آنگن آنگن میں ویرانی ناچ رہی ہے ساز اٹھانا کیسا نغمہ گانا کیسا شام ڈھلے سے آسیبوں کا ڈنکا باجے پورن ماشی میں بھی باہر آنا کیسا اے سیاحو یہ تو دلدل کی وادی ہے اس میں اترے ہو تو جان بچانا کیسا سارے موسم ایک تسلسل میں ...

    مزید پڑھیے

    اڑنا تو بہت اڑنا افلاک پہ جا رہنا

    اڑنا تو بہت اڑنا افلاک پہ جا رہنا ہم نے کہاں سیکھا ہے زیر کف پا رہنا آنکھوں کو کھلا رکھنا کس کے لئے آساں ہے یاں کس کو گوارا ہے آنکھوں کا کھلا رہنا جو موجۂ باد آیا زردی کا پیمبر تھا اعجاز سے کیا کم ہے پیڑوں کا ہرا رہنا باغوں میں خراماں تھی شہروں میں پریشاں ہے خوشبو کو نہ راس آیا ...

    مزید پڑھیے

    تارے ہماری خاک میں بکھرے پڑے رہے

    تارے ہماری خاک میں بکھرے پڑے رہے یہ کیا کہ تیرے نین فلک سے لڑے رہے ہم تھے سفر نصیب سو منزل سے جا ملے جو سنگ میل تھے وہ زمیں میں گڑے رہے لوگوں نے اینٹ اینٹ پر قبضہ جما لیا ہم دم بخود مکان سے باہر کھڑے رہے ہم کو تو جھولنا ہی تھا انصاف کے لئے یہ کیل کیوں صلیب میں ناحق جڑے ...

    مزید پڑھیے