Gulnaz Kausar

گلناز کوثر

گلناز کوثر کی نظم

    حیات رواں

    بظاہر کہیں کوئی ہلچل نہیں ہے حیات رواں اپنے مرکز سے چمٹی ہوئی ہے بہت عام بے کار الجھے دنوں کی ملائم سی گٹھری میں رکھی ہوئی ایک بے نام سی دوپہر ہے ہوا چل رہی ہے نہ جانے کہاں گہرے بے چین بادل کے ٹکڑے اڑے جا رہے ہیں پریشان سڑکوں پہ بہتے ہوئے زرد پتے فضا میں بکھرتا ہوا کچھ غبار ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی یاد کا چہرہ

    کسی کی یاد کا چہرہ مرے ویران گھر کی ادھ کھلی کھڑکی سے جو مجھ کو بلاتا ہے سمے کی آنکھ سے ٹوٹا ہوا تارا جو اکثر رات کی پلکوں کے پیچھے جھلملاتا ہے اسے میں بھول جاؤں گی ملائم کاسنی لمحہ کہیں بیتے زمانوں سے نکل کر مسکراتا ہے کوئی بھولا ہوا نغمہ فضا میں چپکے چپکے پھیل جاتا ہے بہت دن سے ...

    مزید پڑھیے

    رات ہر بار لیے

    رات ہر بار لیے خوف کے خالی پیکر خوں مرا مانگنے بے خوف چلی آتی ہے اور جلتی ہوئی آنکھوں کے تحیر کے تلے ایک سناٹا بہت شور کیا کرتا ہے کچھ تو کٹتا ہے تڑپتا ہے بہاتا ہے لہو اور کھل جاتے ہیں ریشوں کے پرانے بخیے رات ہر بار مری جاگتی پلکیں چن کر اندھے گمنام دریچوں پہ سجا جاتی ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    میں نہیں ہوں مگر

    میں نہیں ہوں مگر اب بھی کھلتے ہیں کھڑکی کے دائیں طرف پھول بل کھائی الجھی ہوئی بیل پر زندگی کے کسی فیصلے کی گھڑی سے الجھتے ہوئے میں کھرچتا رہا تھا یہ روغن جمی ہے یہاں آج تک ننھے دھبے میں اک بے کلی میرے احساس کی اور قالین پر میری پیالی سے چھلکی ہوئی چائے کا اک پرانا نشاں اب بھی تکتا ...

    مزید پڑھیے

    وہم نہیں ہے

    ڈھلتے ڈھلتے ایک روپہلے منظر نے کچھ سوچا پلٹا پگڈنڈی سنسان پڑی تھی مٹیالی اور سرد ہوائیں ہاتھ جھلاتی شاخیں روکھے سوکھے پتے تنہا پیڑ پہ بیٹھے بیٹھے چٹخ رہے تھے ٹوٹ رہے تھے خاک اڑاتی پگڈنڈی پر شام سمے کا دھندلا بادل جھکنے لگا تھا ڈھلتے ڈھلتے ایک روپہلے منظر کی ان بھید بھری آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    بم دھماکہ

    سرما کی بے رحم فضا میں سرخ لہو نے بہتے بہتے حیرانی سے تپتی ہوئی اس خاک کو دیکھا ابھی تو میں ان نیلی گرم رگوں میں کیسے دوڑ رہا تھا بجھتی ہوئی اک سانس کی لو نے اپنے ننھے جیون کی اس آخری تیز کٹیلی ہچکی کو جھٹکا دو خالی نظریں دور دھویں کے پار کہیں کچھ ڈھونڈ رہی تھیں ابھی ابھی تو نیلا ...

    مزید پڑھیے

    شب ڈوب گئی

    پھر گھور اماوس رات میں کوئی دیپ جلا اک دھیمے دھیمے سناٹے میں پھول ہلا کوئی بھید کھلا اور بوسیدہ دیوار پہ بیٹھی یاد ہنسی اک ہوک اٹھی اک پتا ٹوٹا سرسر کرتی ٹہنی سے اک خواب گرا اور کانچ کی درزوں سے کرنوں کا جال اٹھا کچھ لمحے سرکے تاروں کی زنجیر ہلی شب ڈوب گئی

    مزید پڑھیے

    یاد نہیں ہے

    دھیرے دھیرے بہنے والی ایک سلونی شام عجب تھی الجھی سلجھی خاموشی کی نرم تہوں میں سلوٹ سلوٹ بھید چھپا تھا سردیلی مخمور ہوا میں میٹھا میٹھا لمس گھلا تھا دھیرے دھیرے خواب کی گیلی ریت پہ اترے درد کے منظر پگھل رہے تھے خواہش کے گمنام جزیرے ساحل پر پھیلی خوشبو کے مرغولوں کو نگل رہے ...

    مزید پڑھیے

    درد

    سرسراہٹ ہے نہ آہٹ ہے نہ ہلچل نہ چبھن درد چپ چاپ کسی دھیمی ندی کی صورت سانس لیتی ہوئی گانٹھوں میں اتر آیا ہے کتنے برسوں کی ریاضت سے ہنر مندی سے ایسے بکھرے ہوئے ریشوں کو سمیٹا ہے مگر اور ہر بار ہر اک بار بہت جتنوں سے جسم کو جان سے جوڑا ہے مگر بے سبب سانس کی کٹتی ڈوری کب سے تھامے ...

    مزید پڑھیے