Gulam Yahya Huzur Azimabadi

غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی

  • - 1792

غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی کی غزل

    کیا رفو کرنے لگا ہے جا بھی ناداں یک طرف

    کیا رفو کرنے لگا ہے جا بھی ناداں یک طرف پھٹ چلی چھاتی کوئی دم میں گریباں یک طرف چاندنی میں کل نکل بیٹھا تھا وہ خورشید رو دیکھتا تھا میں کھڑا گوشے میں پنہاں یک طرف طرفہ حالت تھی کبھی ہم نے نہ دیکھا تھا حضورؔ ماہ تاباں یک طرف مہر درخشاں یک طرف

    مزید پڑھیے

    یوں تو دل ہر کدام رکھتا ہے

    یوں تو دل ہر کدام رکھتا ہے اہل دل ہونا کام رکھتا ہے کب وہ طمع سلام رکھتا ہے مجھ سا لاکھوں غلام رکھتا ہے عشرت دو جہاں ہے اس کے ساتھ جو صراحی‌ و جام رکھتا ہے ہے وہی خاص بزم دنیا میں جو مدارائے عام رکھتا ہے دین و دنیا کا جو نہیں پابند وہ فراغت تمام رکھتا ہے بت پرستوں کو کوئی کہے ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے مڑنے کی نیں کسی رو سے

    مجھ سے مڑنے کی نیں کسی رو سے چشم رکھتا ہوں تیری ابرو سے اب تو بیٹھا میں نقش پا کی طرح کوئی اٹھتا ہے یار کی کو سے حسن سیرت ہے لازم محبوب خوبی‌ٔ گل ہے خوبیٔ بو سے عشق میں درد سے ہے حرمت دل چشم کو آبرو ہے آنسو سے

    مزید پڑھیے

    اشک آنکھوں کے اندر نہ رہا ہے نہ رہے گا

    اشک آنکھوں کے اندر نہ رہا ہے نہ رہے گا یہ طفل ہے ابتر نہ رہا ہے نہ رہے گا منعم نہ ہو مغرور سدا پاس کسو کے سیم و زر و گوہر نہ رہا ہے نہ رہے گا گر عیش میسر ہو تو کر لیجے کم و بیش سب وقت برابر نہ رہا ہے نہ رہے گا آنکھوں سے اسی طرح اگر سیل رواں ہے دنیا میں کوئی گھر نہ رہا ہے نہ رہے گا جب ...

    مزید پڑھیے

    جو یوں آپ بیرون در جائیں گے

    جو یوں آپ بیرون در جائیں گے خدا جانے کس کس کے گھر جائیں گے شب ہجر میں ایک دن دیکھنا اگر زندگی ہے تو مر جائیں گے عبث گھر سے اپنے نکالے ہے تو بھلا ہم تجھے چھوڑ کر جائیں گے مسافر ہیں لیکن نہیں جانتے کہاں سے ہم آئے کدھر جائیں گے تمنا میں بوسہ کی کہتا ہے جی بدن سے نکل بھی اگر جائیں ...

    مزید پڑھیے

    گلعذار اور بھی یوں رکھتے ہیں رنگ اور نمک

    گلعذار اور بھی یوں رکھتے ہیں رنگ اور نمک پر مرے یار کے چہرے کا سا ڈھنگ اور نمک حسن اس شوخ کا ہے بس کہ ملیح اس کی نگاہ دل پہ کرتے ہیں مرے کار‌ خدنگ اور نمک غنچۂ گل میں و بلبل میں ہوئی بے مزگی دیکھ گلشن میں دہن یار کا تنگ اور نمک درد ہجراں سے بتنگ آپی ہوں ناصح سے کہو زخم پر میرے نہ ...

    مزید پڑھیے

    جہاں میں کہاں باہم الفت رہی ہے

    جہاں میں کہاں باہم الفت رہی ہے مگر صرف صاحب سلامت رہی ہے ہے افسوس اے عمر جانے کا تیرے کہ تو میرے پاس ایک مدت رہی ہے یہ طوفان اشک اس میں آنکھوں کی کشتی تعجب ہے کیوں کر سلامت رہی ہے اگرچہ تری یاد میں خوش ہوں لیکن ان آنکھوں سے دیکھوں یہ حسرت رہی ہے مت امید بوسے کی رکھ دلبروں ...

    مزید پڑھیے

    دل بہ از کعبہ ہے یاراں جبہ سائی چاہیے

    دل بہ از کعبہ ہے یاراں جبہ سائی چاہیے ہے خدا کا گھر یہی لیکن صفائی چاہیے داد حق دیکھا تو مطلق نیں ہے محتاج سوال ہے وہاں بخشش ہی بخشش بے نوائی چاہیے یار کی نا مہربانی پر نہ کیجے کچھ خیال جو ہیں محبوب ان کے تئیں بے اعتنائی چاہیے اپنے ہی گھر میں خدائی ہے جو کوئی سمجھے حضورؔ ہاں ...

    مزید پڑھیے

    محزوں نہ ہو حضورؔ اب آتا ہے یار اپنا

    محزوں نہ ہو حضورؔ اب آتا ہے یار اپنا کرتا ہے فضل تجھ پر پروردگار اپنا جب سے گیا وہ مہ رو آغوش سے ہماری رہتا ہے جیوں مہ نو خالی کنار اپنا زلف و رخ صنم کے غم میں سدا رہے ہم گزرا ہمیشہ یوں ہی لیل و نہار اپنا اے بے خودیٔ مے تو آ دوش پر اٹھا لے اٹھتا نہیں مجھ سے اب بوجھ بھار ...

    مزید پڑھیے

    آبرو الفت میں اگر چاہئے

    آبرو الفت میں اگر چاہئے رکھنی سدا چشم کو تر چاہئے دل تو تجھے دے ہی چکے جان بھی لیجئے حاضر ہے اگر چاہئے یار ملے یا نہ ملے صبح و شام کوچۂ جاناں میں گزر چاہئے نام بھی نم کا نہ رہا چشم میں اب تو گریے لخت جگر چاہئے تیر نگہ وہ ہے کہ جس تیر کے سامنے ہونے کو جگر چاہئے اب کی بچے جی تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3