Gulam jilani Asghar

غلام جیلانی اصغر

غلام جیلانی اصغر کی غزل

    کتنے دریا اس نگر سے بہہ گئے

    کتنے دریا اس نگر سے بہہ گئے دل کے صحرا خشک پھر بھی رہ گئے آج تک گم سم کھڑی ہیں شہر میں جانے دیواروں سے تم کیا کہہ گئے ایک تو ہے بات بھی سنتا نہیں ایک ہم ہیں تیرا غم بھی سہہ گئے تجھ سے جگ بیتی کی سب باتیں کہیں کچھ سخن نا گفتنی بھی رہ گئے تیری میری چاہتوں کے نام پر لوگ کہنے کو بہت ...

    مزید پڑھیے

    موج صرصر کی طرح دل سے گزر جاؤ گے

    موج صرصر کی طرح دل سے گزر جاؤ گے کس کو معلوم تھا تم دل میں اتر جاؤ گے چار سو وقت کی گردش کی فصیل شب ہے بچ کے اس گردش دوراں سے کدھر جاؤ گے آئینہ خانے سے دامن کو بچا کر گزرو آئینہ ٹوٹا تو ریزوں میں بکھر جاؤ گے اک ذرا اور قریب رگ جاں آؤ تو میرے خوں ناب میں تم ڈھل کے سنور جاؤ گے دیکھو ...

    مزید پڑھیے

    تو انگ انگ میں خوشبو سی بن گیا ہوگا

    تو انگ انگ میں خوشبو سی بن گیا ہوگا میں سوچتا ہوں کہ تجھ سے گریز کیا ہوگا تمام رات مرے دل سے آنچ آتی رہی کہیں قریب کوئی شہر جل رہا ہوگا تو میرے ساتھ بھی رہ کر مرے قریب نہ تھا اب اس سے اور فزوں فاصلہ بھی کیا ہوگا مجھے خود اپنی وفا پر بھی اعتماد نہیں کبھی تو تو بھی مری طرح سوچتا ...

    مزید پڑھیے

    تو سرحد خیال سے آگے گزر گیا

    تو سرحد خیال سے آگے گزر گیا میں تیری جستجو میں بحد نظر گیا دل کو کریدنے سے مری جان فائدہ اک زخم تھا کہ وقت کی آندھی سے بھر گیا ساحل تمام عمر یوں ہی تشنہ لب رہا سیلاب کتنی بار یہاں سے گزر گیا عمر گریز پا کو کہاں ڈھونڈنے چلیں وہ نقش لوح وقت سے کب کا اتر گیا

    مزید پڑھیے

    کچھ تمہاری انجمن میں ایسے دیوانے بھی تھے

    کچھ تمہاری انجمن میں ایسے دیوانے بھی تھے جو بکار خویش دیوانے بھی فرزانے بھی تھے یوں تو ہر صورت پہ تھا بیگانگی کا شائبہ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو جانے پہچانے بھی تھے سب بہ توفیق مروت دوستی کرتے رہے لوگ کیا کرتے کہ خود ان کے صنم خانے بھی تھے تو نے اپنی آگہی کے ظرف سے جانچا ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا ان کا تعلق جو رسم و راہ کا تھا

    ہمارا ان کا تعلق جو رسم و راہ کا تھا بس اس میں سارا سلیقہ مرے نباہ کا تھا تجھے قریب سے دیکھا تو دل نے سوچا ہے کہ تیرا حسن بھی اک زاویہ نگاہ کا تھا تجھے تراش کے دل میں سجا لیا میں نے قصور اس میں مری رفعت نگاہ کا تھا چلے تھے یوں تو کئی لوگ کوئے جاناں کو ذرا سا ہم سے مگر اختلاف راہ کا ...

    مزید پڑھیے

    اب کے بازار میں یہ طرفہ تماشا دیکھا

    اب کے بازار میں یہ طرفہ تماشا دیکھا بیچنے نکلے تو یوسف کا خریدار نہ تھا دوستو رسم محبت پہ یہ کیا بیت گئی شہر یاراں میں کوئی شخص سر دار نہ تھا اور بھی لوگ تھے توفیق وفا رکھتے تھے ایک میں ہی تو ترے غم کا سزاوار نہ تھا دل کے کہنے پہ لگا لی ہے وفا کی تہمت ورنہ جینا تو مجھے باعث آزار ...

    مزید پڑھیے

    ملے بھی دوست تو اس طرز بے دلی سے ملے

    ملے بھی دوست تو اس طرز بے دلی سے ملے کہ جیسے اجنبی کوئی اک اجنبی سے ملے قدم قدم پہ خلوص وفا کا ذکر کیا عدو ملے بھی تو کس حسن‌ سادگی سے ملے ستم کرو بھی تو انداز منصفی سے کرو کوئی سلیقہ تو عنوان دوستی سے ملے تری تلاش میں نکلے تھے تیرے دیوانے ہر ایک موڑ پہ خود اپنی زندگی سے ملے وہ ...

    مزید پڑھیے