تمام جسم کی پرتیں جدا جدا کرکے
تمام جسم کی پرتیں جدا جدا کرکے جئے چلے گئے قسطوں میں لوگ مر مر کے ہر ایک موج مرے پاؤں چھو کے لوٹ گئی کہیں یہ خواب نہ ہوں نیند کے سمندر کے مری کمان میں ہیں نا توانیاں میری خود اپنی ذات پہ ہیں تیر میرے تیور کے عجب حسین خیالوں کو ذہن پالتا ہے تراشتا ہے صنم بھی تو سنگ مرمر کے بھٹک ...