فطرت انصاری کی غزل

    تصور میں جمال روئے تاباں لے کے چلتا ہوں

    تصور میں جمال روئے تاباں لے کے چلتا ہوں اندھیری راہ میں شمع فروزاں لے کے چلتا ہوں شکستہ دل ہجوم یاس و حرماں لے کے چلتا ہوں حضور حسن میں یہ ساز و ساماں لے کے چلتا ہوں انہیں شاید یقیں آ جائے اب میری محبت کا میں ان کے روبرو چاک گریباں لے کے چلتا ہوں تمہاری یاد ہر اک گام پر مجھ کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2