فگار اناوی کی غزل

    سعی غیر حاصل کو مدعا نہیں ملتا

    سعی غیر حاصل کو مدعا نہیں ملتا بے نیاز دل بن کر دیکھ کیا نہیں ملتا زندگیٔ رفتہ کا کچھ پتا نہیں ملتا خاک پا تو ملتی ہے نقش پا نہیں ملتا اس کا آئنہ ہے دل جا بہ جا نہیں ملتا دل میں جب ہو تاریکی پھر خدا نہیں ملتا آمد بہاراں کا اک پیام لانے سے کیوں ترا دماغ آخر اے صبا نہیں ملتا آئنہ ...

    مزید پڑھیے

    تم حریم ناز میں بیٹھے ہو بیگانے بنے

    تم حریم ناز میں بیٹھے ہو بیگانے بنے جستجو میں اہل دل پھرتے ہیں دیوانے بنے سب کو ساقی نے نہیں بخشا دل درد آشنا جتنے اہل ظرف تھے اتنے ہی پیمانے بنے جلوۂ حسن اور سوز عشق دونوں ایک ہیں شمع کی لو تھرتھرانے ہی سے پروانے بنے موج طوفاں خیز اٹھ کر چھین لے ساحل کی آس ناخدا کے آتے آتے کیا ...

    مزید پڑھیے

    جرأت عشق ہوس کار ہوئی جاتی ہے

    جرأت عشق ہوس کار ہوئی جاتی ہے بے پیے توبہ گنہ گار ہوئی جاتی ہے دل ہے افسردہ تو بے رنگ ہے ہر رنگ بہار بوئے گل بھی خلش خار ہوئی جاتی ہے باوجودیکہ جنوں پر ہیں خرد کے پہرے پھر بھی زنجیر کی جھنکار ہوئی جاتی ہے ہر نفس موج فنا تیرے تھپیڑوں کے طفیل کشتئ عمر رواں پار ہوئی جاتی ہے جو ...

    مزید پڑھیے

    چلا ہوں اپنی منزل کی طرف تو شادماں ہو کر

    چلا ہوں اپنی منزل کی طرف تو شادماں ہو کر کہیں مایوسیٔ دل ہو نہ رہزن پاسباں ہو کر ہماری داستاں ہو کر تمہاری داستاں ہو کر کہاں پہنچی محبت کارواں در کارواں ہو کر مرے ذوق عبودی کی تکمیل اے معاذ اللہ جبیں انعام سجدہ دے رہی ہے آستاں ہو کر خود اپنے سوز سے جلنا تو ہر اک شمع کو آیا وہ ...

    مزید پڑھیے

    کچھ کام تو آیا دل ناکام ہمارا

    کچھ کام تو آیا دل ناکام ہمارا ٹوٹا ہے تو ٹوٹا ہی سہی جام ہمارا جتنا اسے سمجھا کئے بیگانۂ تاثیر اتنا تو نہ تھا جذبۂ دل خام ہمارا یہ کون مقام آیا قدم اٹھتے نہیں ہیں منزل پہ ٹھہرنا تو نہ تھا کام ہمارا ہم جیسے تڑپتے ہیں تڑپتے رہے دن رات کچھ کر نہ سکی گردش ایام ہمارا یہ گردش ...

    مزید پڑھیے

    ہستی اک نقش انعکاسی ہے

    ہستی اک نقش انعکاسی ہے یہ حقیقت نہیں قیاسی ہے ذوق تشنہ ہے روح پیاسی ہے سارا ماحول ہی سیاسی ہے کھب گئی دل میں ہر ادا اس کی کج ادائی بھی خوش ادا سی ہے دل ہے افسردہ تو بہار کہاں باغ میں ہر طرف اداسی ہے ان کو پا کر قرار آئے گا اہل دل یہ بھی خوش قیاسی ہے سو حجابوں میں بے حجاب ہے ...

    مزید پڑھیے

    حاصل ضبط فغاں ناکام ہے

    حاصل ضبط فغاں ناکام ہے اب تو خاموشی پہ بھی الزام ہے کوئی آواز شکست جام ہے توبہ توبہ ہر طرف کہرام ہے یہ بھی فیض گردش ایام ہے صبح ہے اپنی نہ اپنی شام ہے دل ہوا ترک و طلب سے بے نیاز اب یہاں آرام ہی آرام ہے بحر طوفاں خیز کا ساحل کہاں عشق کا آغاز بے انجام ہے رنج کوئی شے نہ کوئی شے ...

    مزید پڑھیے

    غم جاناں سے رنگیں اور کوئی غم نہیں ہوتا

    غم جاناں سے رنگیں اور کوئی غم نہیں ہوتا کہ اس کے درد میں احساس بیش و کم نہیں ہوتا وہ ہیں کم ظرف جن کا شور نالہ کم نہیں ہوتا چمن میں پھول بھی تو ہیں انہیں کیا غم نہیں ہوتا کمال ضبط گریہ عظمت شان محبت ہے چھلک جائے جو پیمانہ وہ جام جم نہیں ہوتا یہاں تک دل کو عادت ہو گئی ہے بے قراری ...

    مزید پڑھیے

    چمن اپنے رنگ میں مست ہے کوئی غم گسار دگر نہیں

    چمن اپنے رنگ میں مست ہے کوئی غم گسار دگر نہیں کہ ہے شبنم اشک فشاں مگر گل تر کو کوئی خبر نہیں غم زندگی کا علاج تو کبھی موت سے بھی نہ ہو سکا یہ وہ سخت قید حیات ہے کسی طرح جس سے مفر نہیں مرے پاس جو بھی تھا لٹ گیا نہ وہ میں رہا نہ وہ دل رہا کسی اور شے کا تو ذکر کیا کہ اب آہ میں بھی اثر ...

    مزید پڑھیے

    شہرت طرز فغاں عام ہوئی جاتی ہے

    شہرت طرز فغاں عام ہوئی جاتی ہے کوشش ضبط بھی ناکام ہوئی جاتی ہے مست ہیں اور طلب جام ہوئی جاتی ہے بے خودی ہوش کا پیغام ہوئی جاتی ہے مسکراتا ہے حسیں پردۂ گلشن میں کوئی اور کلی مفت میں بدنام ہوئی جاتی ہے قید میں بھی ہے اسیروں کا وہی جوش عمل مشق پرواز تہ دام ہوئی جاتی ہے توڑ کر دل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2