Fayyaz tahseen

فیاض تحسین

فیاض تحسین کی نظم

    سمجھ میں کچھ نہیں آتا

    انہونی بھی ہو جاتی ہے ہونی یوں ہی ہوتے ہوتے رہ جاتی ہے اونچے نیچے ہو جاتے ہیں ڈوبنے والے دریا پار اتر جاتے ہیں اور تیرا اک سمندر کے ساحل پر ڈوب کے مر جاتے ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی ہر خواہش حسرت میں ڈھل جاتی ہے کچھ ایسے ہیں جو اک خواہش حسرت ہی میں مر جاتے ہیں کس کے نصیب میں کیا ہے کون ...

    مزید پڑھیے

    عجب سا ایک قصہ

    مری آنکھوں کا ہر منظر اداسی کا دریدہ پیرہن ہے شہر کی گلیاں خموشی کا کفن پہنے پڑی ہیں چاندنی جیسے کس کی آنکھ کا یرقان ہو اور دور تک پھیلی چھتوں پر لیٹنے والوں کے چہروں پر برستا ہو چھتوں پر لیٹنے والوں کے چہرے زرد ہیں ٹھنڈی ہوا کے ایک جھونکے کو ترستے ہیں ادھر باہر بہت آہستگی سے خوف ...

    مزید پڑھیے

    اچار کا مرتبان

    تمہاری امی نے اپنی عزت کو مرتبانوں میں بند کر کے مکاں کی چھت سے لٹکتے چھینکے میں رکھ دیا تھا تمہاری امی نے بارہا تم سے یہ کہا تھا ''اچار کچا ہے' تیل کی بو مٹی نہیں ہے ابھی نہ یہ مرتبان کھولو ہوا اگر برتنوں میں داخل ہوئی تو الی تمام پھانکوں کا ناس کر دے گی'' تم مگر سوچ میں پڑی ہو ''نہ ...

    مزید پڑھیے

    نتیجہ چاہیے ہر شے کا

    مجھے نعروں سے رغبت ہے وہ میرے خون کی حدت کا باعث ہیں وہ میری زندگی کا جزو‌ لا ینفک ہزاروں سال سے میرے ارادوں حوصلوں اور ولولوں کی داستانوں میں نمایاں ہیں وہ میری ذات کے آئینہ خانے میں مسلسل رقص کرتے ہیں زمانے میری یادوں سے پھسل کر سامنے آئے تو میں اک دشت امکاں سے نکل کر مسکرا ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری منزل کہیں نہیں ہے

    بے بسی کا عذاب اداس رستوں پہ چلنے والو اداسیوں کا سفر مقدر ہے تم یہ رستے بدل بھی لو تو نشان منزل تمہاری آنکھوں کی تیرگی میں لپٹ کے بے نام ہو رہے گا یہ شہر یہ بستیاں یہ قریے بس ایک بے نام خوف کی زد میں آ گئے ہیں تمہاری آنکھوں میں کن خزاؤں کی زرد ویرانیاں بسی ہیں تمہارے ہونٹوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    جانے والے کا نوحہ

    مجھے جانے والے کا غم تو نہیں ہے کہ جانا مقدر ہے لیکن مجھے اس سے یہ پوچھنا ہے کہ پہلے سفر کی حکایات میں گر تہی دامنی ہے تو پھر کون سی منزلوں کی طلب میں یہ عزم سفر ہے یہ عزم سفر ہے تو وقت سفر پھر اداسی کی بے نور چادر لپیٹے نگاہوں میں ویرانیوں کو بسائے ہر اک آنے والے سے کیوں کہہ رہا ...

    مزید پڑھیے