Fani Jodhpuri

فانی جودھپوری

  • 1984

فانی جودھپوری کی غزل

    یہ صحرا میرا ہے جھیلم چناب اس کی طرف

    یہ صحرا میرا ہے جھیلم چناب اس کی طرف تراب میری طرف اور آب اس کی طرف نہ جانے کس نے بنائی ہے دوغلی تصویر ہیں خار میری طرف اور گلاب اس کی طرف زبان میری ہے الفاظ ہیں مرے لیکن ہے بات چیت کا لب و لباب اس کی طرف مری غزل کے مقدر میں پیاس آئی ہے کشید کی ہوئی عمدہ شراب اس کی طرف کوئی معمہ ...

    مزید پڑھیے

    خوشی کہ چہرے پہ غم کا جلال ساتھ لئے

    خوشی کہ چہرے پہ غم کا جلال ساتھ لئے حیات ملتی ہے پر انتقال ساتھ لئے بلندیوں پہ سبھی آ کے بھول جاتے ہیں عروج آتا ہے لیکن زوال ساتھ لئے وہ خون آنکھوں سے رونا عمل پرانا ہے اب اشک بہتے ہیں آنکھوں کی کھال ساتھ لئے کئی جمی ہوئی پرتیں ادھیڑ ڈالے گا یہ مجھ میں کون ہے اترا کدال ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    بہت سنا تھا کہ کھلتا ہے پر نہیں کھلتا

    بہت سنا تھا کہ کھلتا ہے پر نہیں کھلتا خدا کے واسطے بندے کا گھر نہیں کھلتا وہ ایک شعر جو کھلتا ہے ساری محفل پہ وہ جس پہ کھلنا ہے اس پہ مگر نہیں کھلتا ہمارے قد کے مطابق جسے بنایا تھا وہی وہ در ہے جو بالشت بھر نہیں کھلتا بنے ہوئے ہیں عجایب گھروں کی زینت ہم پر اپنے واسطے اپنا ہی در ...

    مزید پڑھیے

    لالچ سے اور جور و جفا سے نہیں بنی

    لالچ سے اور جور و جفا سے نہیں بنی اپنی زمین والے خدا سے نہیں بنی خوشیوں کے ساتھ رہ نہ سکے ایک پل کبھی یعنی چراغیوں کی ہوا سے نہیں بنی سننے کی حد تلک اسے اک بار کیا سنا کانوں کی پھر کسی بھی صدا سے نہیں بنی اپنی انا کی ریت پہ اپنے اصول پہ پالا وہ درد جس کی دوا سے نہیں بنی ہم نے اسی ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ بھال کر سنبھل سنبھل کر آتے ہیں

    دیکھ بھال کر سنبھل سنبھل کر آتے ہیں ہم تک چہرے عمر بدل کر آتے ہیں جمے ہیں جو چہرے آنکھوں کی کوروں پہ آؤ ان کو گیت غزل کر آتے ہیں جب کرنیں پانی پہ دستک دیتی ہیں لہروں پہ گرداب اچھل کر آتے ہیں تم جیسے ہم لگنے لگیں گے ٹھہرو تو ہم بھی اپنا خون بدل کر آتے ہیں گلشن سے مجھ تک آنے میں ...

    مزید پڑھیے

    اک عمارت نئی تعمیر ہوئی جاتی ہے

    اک عمارت نئی تعمیر ہوئی جاتی ہے شہر کی اک نئی تفسیر ہوئی جاتی ہے اے مرے عزم سفر کھینچ کہ لے جا مجھ کو اک قسم پاؤں کی زنجیر ہوئی جاتی ہے کھینچنے آئی ہے اب موت مرے دامن کو آپ کے خواب کی تعبیر ہوئی جاتی ہے حد تو یہ ہے کہ مری ذات کے اندر بھی اب جا بجا آپ کی جاگیر ہوئی جاتی ہے میں نے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی مکیں بھی نہ تھا اس مکاں سے لوٹا ہوں

    کوئی مکیں بھی نہ تھا اس مکاں سے لوٹا ہوں خدا ہی جانتا ہے میں کہاں سے لوٹا ہوں حیات گزری تھی کردار جس کے گڑھنے میں ذلیل ہو کے اسی داستاں سے لوٹا ہوں نہ کوئی نقش نظر میں نہ دھول کپڑوں پہ سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہاں سے لوٹا ہوں جہاں پہ آ کے مکمل ہوئے وجود تمام ادھورا ہو کہ اکیلا ...

    مزید پڑھیے

    فضا کہ ہاتھ میں رکھ کر اڑان کی خوشبو

    فضا کہ ہاتھ میں رکھ کر اڑان کی خوشبو بدن پہ لے کہ میں اترا تھکان کی خوشبو میں مل رہا ہوں بہت دیر سے زمیں لیکن پروں سے جاتی نہیں آسمان کی خوشبو ادھر عبور کیا پچھلی آزمائش کو ادھر سے آئی نئے امتحان کی خوشبو اجڑنے والی ہے سبزے کی سلطنت ساری زمیں اگلنے لگی ہے مکان کی خوشبو خدارا ...

    مزید پڑھیے

    کھوٹوں کو بھی کھرا بتانا پڑتا ہے

    کھوٹوں کو بھی کھرا بتانا پڑتا ہے دنیا کا دستور نبھانا پڑتا ہے اثر وقت کا چہرے پہ دکھلانے کو آئنے کو آگے آنا پڑتا ہے اپنی آنکھیں مریں نہ بھوکی اس خاطر کچھ چہروں کو روز کمانا پڑتا ہے جسم نگر کے پار جو کچی بستی ہے اس کے آگے میرا ٹھکانا پڑتا ہے میں میرا میں نے مجھ سے کہ چنگل سے خود ...

    مزید پڑھیے

    چلن اس دوغلی دنیا کا گر منظور ہو جاتا

    چلن اس دوغلی دنیا کا گر منظور ہو جاتا وہ مجھ سے دور ہو جاتا میں اس سے دور ہو جاتا ہنر ہاتھوں سے چکنے کا بچا کر لے گیا مجھ کو بھروسے پاؤں کے رہتا تو میں معذور ہو جاتا زمانے بھر کی باتوں کو اگر دل سے لگا لیتا جہاں پہ دل دھڑکتا ہے وہاں ناسور ہو جاتا سفر کرتے ہوئے اپنا ہٹا کر آنکھ سے ...

    مزید پڑھیے