Faiz rahil Khan

فیض راحیل خان

فیض راحیل خان کی غزل

    اب چلو دیکھ لیں یہی کر کے

    اب چلو دیکھ لیں یہی کر کے اپنے ماضی پہ شاعری کر کے لے گئی راتیں پھر اجالوں کو پھر سے باتیں بڑی بڑی کر کے راتیں مجھ میں سکون کتنا ہے ہم نے دیکھا یہ بندگی کر کے زندگی اک کتاب تھی پھر بھی لوگ گزرے غلط سہی کر کے لوٹنا ہے مجھے وہیں یاروں ان کے ہی نام زندگی کر کے فیضؔ سودا نہیں کیا ...

    مزید پڑھیے

    غموں کی بھیڑ نے کچلا ہے مجھ کو شادمانی میں

    غموں کی بھیڑ نے کچلا ہے مجھ کو شادمانی میں لگانا چاہتا تھا تشنگی کی آگ پانی میں ہر اک شے اڑ گئی میری ہواؤں کی روانی سے سمٹ کے رہ گئی خواہش وفاؤں کی جوانی میں ہمیشہ چشم میں رہنا مجھے اچھا نہیں لگتا میں رہنا چاہتا ہوں اے سمندر تیرے پانی میں تری بستی کے مجرے سے تری اوقات کیا ...

    مزید پڑھیے

    دل میں تجھ کو شمار کر لوں میں

    دل میں تجھ کو شمار کر لوں میں ہو اجازت تو پیار کر لوں میں اس خزاں کو سمیٹ لو تم تو موسم خوش گوار کر لوں میں عشق اگر جرم ہے تو جرم صنم بے سبب بے شمار کر لوں میں تم نے وعدہ کیا ہے آنے کا دو گھڑی انتظار کر لوں میں ساری دنیا کو جیت لوں پل میں تجھ پہ گر افتخار کر لوں میں ہاتھ حاصل سے ...

    مزید پڑھیے

    قدم قدم پہ کھڑی ہے ہوا پیام لیے

    قدم قدم پہ کھڑی ہے ہوا پیام لیے کہ آ رہی ہے خزاں اپنا انتظام لیے کسی فقیر کا جس نے نہ احترام کیا وہ مسجدوں میں ملا مجھ کو احترام لیے ترے عذاب میں مر کر ترے دریچے سے میں جا رہا ہوں محبت کا انتقام لیے مجھے گلی میں دکھی ہے فقط ضیا یعنی چلی گئی ہے سیاست دعا سلام لیے مجھے بھی یاد کے ...

    مزید پڑھیے

    تم دریا سا اشک بہاؤ تو جانیں

    تم دریا سا اشک بہاؤ تو جانیں کیا گزری ہے بات بتاؤ تو جانیں دادا کی پہچان بتانا آساں ہے اپنے دم پر نام کماؤ تو جانیں بستی میں تم خوب سیاست کرتے ہو بستی کی آواز اٹھاؤ تو جانیں بچوں جیسا اشک بہا کر آئے ہو تم عاشق ہو درد چھپاؤ تو جانیں جسم سجا کر بیٹھ گئے ہو کیا سمجھوں پلکوں پر کچھ ...

    مزید پڑھیے

    نیند آ جائے تو لمحات میں مر جاتے ہیں

    نیند آ جائے تو لمحات میں مر جاتے ہیں دن سے بچ نکلے بدن رات میں مر جاتے ہیں کرتے ہیں اپنی زباں سے جو دلوں کو زخمی دب کے اک دن وہ اسی بات میں مر جاتے ہیں یاد آتی ہے تیری جب بھی گلابی باتیں ڈوب کر تیرے خیالات میں مر جاتا ہوں جب کبھی جاتے ہیں احباب کی شادی میں ہم جانیں کیوں جاتے ہی ...

    مزید پڑھیے

    صبح لکھتی ہے ترا نام مری آنکھوں میں

    صبح لکھتی ہے ترا نام مری آنکھوں میں قید تنہائی کی ہے شام میری آنکھوں میں نیند آتی ہے دعا دے کے چلی جاتی ہے اشک جب کرتا ہے آرام مری آنکھوں میں اب ترے نقش کف پا کو مٹانے خوشبو آئی ہے گردش ایام مری آنکھوں میں دو قدم ساتھ چلے تب تو بتاؤں اس کو ہے تری منزل گم نام مری آنکھوں میں تجھ ...

    مزید پڑھیے

    جسم کی ریت بھی مٹھی سے پھسل جائے گی

    جسم کی ریت بھی مٹھی سے پھسل جائے گی موت جب روح لیے گھر سے نکل جائے گی صبح آئے گی جنازے میں لیے سورج کو یاد ماضی میں اگر رات پگھل جائے گی اگ کے بس میں نہیں اپنی حفاظت کرنا تو فقط موم جلا آگ بھی جل جائے گی خانۂ دل میں بسی چشم لہو مانگیں ہے سوچتا تھا کہ کھلونے سے بہل جائے گی شام جب ...

    مزید پڑھیے

    یاد راتوں میں آ گیا کوئی

    یاد راتوں میں آ گیا کوئی رات مجھ کو رلا گیا کوئی مجھ کو سینے سے مت لگا ساقی مجھ میں کانٹے بچھا گیا کوئی اے ہوا جا اسے خبر کر دے اپنا وعدہ نبھا گیا کوئی سب کو حصہ ملا تھا لیکن کیوں میرے حصے کو کھا گیا کوئی تیرے رونے کی ایک وجہ تو ہے مجھ کو یوں ہی رلا گیا کوئی میری غلطی نہیں ہے اے ...

    مزید پڑھیے