فہیم جوگاپوری کی غزل

    دیر کے ساتھ حرم آئے شوالے آئے

    دیر کے ساتھ حرم آئے شوالے آئے آج چھن چھن کے اندھیروں سے اجالے آئے برہمن آئے ہیں زنار لیے ہاتھوں میں حضرت شیخ بھی دستار سنبھالے آئے ہم نے بے ساختہ کانٹوں کے دہن چوم لیے جب کبھی دشت میں پھولوں کے حوالے آئے ہجر کے درد بھی آنسو بھی ہے تنہائی بھی ترے جاتے ہی مرے چاہنے والے آئے اس ...

    مزید پڑھیے

    غم بھی صدیوں سے ہیں اور دیدۂ تر صدیوں سے

    غم بھی صدیوں سے ہیں اور دیدۂ تر صدیوں سے خانہ بربادوں کے آباد ہیں گھر صدیوں سے در بدر ان کا بھٹکنا تو نئی بات نہیں چاہنے والے تو ہیں خاک بسر صدیوں سے کوئی مشکل نہ مسافت ہے نہ رستے کی تھکن اصل زنجیر ہے سامان سفر صدیوں سے تجھ سے ملنے کے سوا ساری دعائیں گلشن اک یہی شاخ ہے بے برگ و ...

    مزید پڑھیے

    یہ فقیری ہے قناعت کے سوا کیا جانے

    یہ فقیری ہے قناعت کے سوا کیا جانے کون کیا دے کے گیا دست دعا کیا جانے آگ تن میں تو لگا لینا کوئی کھیل ہے کیا کتنے مجبور دیے ہوں گے ہوا کیا جانے اس کو کرنا ہے تہ خاک سو کرتی جائے کون ہے سیم بدن موج بلا کیا جانے وہ تو دریاؤں کو سیراب کئے جاتی ہے سوکھے کھیتوں کی ضرورت کو گھٹا کیا ...

    مزید پڑھیے

    دوستی میں نہ دشمنی میں ہم

    دوستی میں نہ دشمنی میں ہم کیا نظر آئیں گے کسی میں ہم کیوں سجاتے ہیں خواب صدیوں کے چند لمحوں کی زندگی میں ہم سیر کرتے ہیں دونوں عالم کی اپنے خوابوں کی پالکی میں ہم جب تمہارا خیال آتا ہے ڈوب جاتے ہیں روشنی میں ہم کوئی آواز کیوں نہیں دیتا ڈگمگاتے ہیں تیرگی میں ہم پیاس ہم کو ...

    مزید پڑھیے

    جس نے چھپا کے بھوک کو پتھر میں رکھ لیا

    جس نے چھپا کے بھوک کو پتھر میں رکھ لیا دنیا کو اس فقیر نے ٹھوکر میں رکھ لیا اہل جنوں کو اپنے جنوں سے وہ عشق تھا دل نے جگہ نہ دی تو اسے سر میں رکھ لیا ننھا کوئی پرند اڑا جب تو یوں لگا ہمت نے آسمان کو شہ پر میں رکھ لیا آنکھوں نے آنسوؤں کو عجب اہتمام سے موتی بنا کے دل کے سمندر میں رکھ ...

    مزید پڑھیے

    اپنے قدم کی چاپ سے یوں ڈر رہے ہیں ہم

    اپنے قدم کی چاپ سے یوں ڈر رہے ہیں ہم مقتل کی سمت جیسے سفر کر رہے ہیں ہم کیا چاند اور تاروں کو ہم جانتے نہیں اے آسمان والو زمیں پر رہے ہیں ہم مشکل تھا سطح آب سے ہم کو کھنگالنا باہر نہیں تھے جتنا کہ اندر رہے ہیں ہم کل اور کوئی وقت کی آنکھوں میں ہو تو کیا اب تک تو ہر نگاہ کا محور رہے ...

    مزید پڑھیے

    آنا تھا جسے آج وہ آیا تو نہیں ہے

    آنا تھا جسے آج وہ آیا تو نہیں ہے یہ وقت بدلنے کا اشارا تو نہیں ہے دعوت دے کبھی کیوں وہ محبت سے بلائے دریا سے مری پیاس کا رشتہ تو نہیں ہے یہ کون گیا ہے کہ جھپکتی نہیں آنکھیں رستے میں وہ ٹھہرا ہوا لمحہ تو نہیں ہے ہنستا ہوا چہرہ ہے دمکتا ہوا پیکر گزرا ہوا یہ میرا زمانہ تو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    شام خاموش ہے پیڑوں پہ اجالا کم ہے

    شام خاموش ہے پیڑوں پہ اجالا کم ہے لوٹ آئے ہیں سبھی ایک پرندہ کم ہے دیکھ کر سوکھ گیا کیسے بدن کا پانی میں نہ کہتا تھا مری پیاس سے دریا کم ہے خود سے ملنے کی کبھی گاؤں میں فرصت نہ ملی شہر آئے ہیں یہاں ملنا ملانا کم ہے آج کیوں آنکھوں میں پہلے سے نہیں ہیں آنسو آج کیا بات ہے کیوں موج ...

    مزید پڑھیے

    کیا کوئی تصویر بن سکتی ہے صورت کے بغیر

    کیا کوئی تصویر بن سکتی ہے صورت کے بغیر پھر کسی سے کیوں ملے کوئی ضرورت کے بغیر دشمنی تو چاہنے کی انتہا کا نام ہے یہ کہانی بھی ادھوری ہے محبت کے بغیر تیری یادیں ہو گئیں جیسے مقدس آیتیں چین آتا ہی نہیں دل کو تلاوت کے بغیر دھوپ کی ہر سانس گنتے شام تک جو آ گئے چھاؤں میں وہ کیا جئیں ...

    مزید پڑھیے