Ejaz Rahmani

اعجاز رحمانی

اعجاز رحمانی کی غزل

    اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے

    اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے اسے تو اپنی بھی صورت نظر نہیں آتی وہ اپنے شیشۂ دل کی تو گرد صاف کرے کیا جو اس نے مرے ساتھ نا مناسب تھا معاف کر دیا میں نے خدا معاف کرے وہ شخص جو کسی مسجد میں جا نہیں سکتا تو اپنے گھر میں ہی کچھ روز اعتکاف کرے وہ ...

    مزید پڑھیے

    مٹ گیا غم ترے تکلم سے

    مٹ گیا غم ترے تکلم سے لب ہوئے آشنا تبسم سے کس کے نقش قدم ہیں راہوں میں جگمگاتے ہیں ماہ و انجم سے ہے زمانہ بڑا زمانہ شناس کبھی مجھ سے گلا کبھی تم سے ناخدا بھی ملا تو ایسا ملا آشنا جو نہیں تلاطم سے اس نے آ کر مزاج پوچھ لیا ہم تو بیٹھے ہوئے تھے گم صم سے ناخدا نے ڈبو دیا ان کو وہ ...

    مزید پڑھیے

    رنگ موسم کے ساتھ لائے ہیں

    رنگ موسم کے ساتھ لائے ہیں یہ پرندے کہاں سے آئے ہیں بیٹھ جاتے ہیں راہ رو تھک کر کتنے ہمت شکن یہ سائے ہیں دھوپ اپنی زمین ہے اپنی پیڑ اپنے نہیں پرائے ہیں اپنے احباب کی خوشی کے لئے بلا ارادہ بھی مسکرائے ہیں دشمنوں کو قریب سے دیکھا دوستوں کے فریب کھائے ہیں ہم نے توڑا ہے ظلمتوں کا ...

    مزید پڑھیے

    نقش بر آب ہو گیا ہوں میں

    نقش بر آب ہو گیا ہوں میں کتنا کم یاب ہو گیا ہوں میں جھریاں کہہ رہی ہیں چہرے کی خشک تالاب ہو گیا ہوں میں کیا کروں گا میں اب خوشی لے کر غم سے سیراب ہو گیا ہوں میں یاد رکھتا نہیں مجھے کوئی عرصۂ خواب ہو گیا ہوں میں اس قدر بار غم اٹھایا ہے جھک کے محراب ہو گیا ہوں میں اک مسیحا کی ...

    مزید پڑھیے

    ظالم سے مصطفیٰ کا عمل چاہتے ہیں لوگ

    ظالم سے مصطفیٰ کا عمل چاہتے ہیں لوگ سوکھے ہوئے درخت سے پھل چاہتے ہیں لوگ کافی ہے جن کے واسطے چھوٹا سا اک مکاں پوچھے کوئی تو شیش محل چاہتے ہیں لوگ سائے کی مانگتے ہیں ردا آفتاب سے پتھر سے آئنے کا بدل چاہتے ہیں لوگ کب تک کسی کی زلف پریشاں کا تذکرہ کچھ اپنی الجھنوں کا بھی حل چاہتے ...

    مزید پڑھیے

    سائے میں آبلوں کی جلن اور بڑھ گئی

    سائے میں آبلوں کی جلن اور بڑھ گئی تھک کر جو بیٹھے ہم تو تھکن اور بڑھ گئی کل اس قدر تھا حبس ہمارے مکان میں سنکی ہوا ذرا تو گھٹن اور بڑھ گئی کانٹوں کی گفتگو سے خلش دل میں کم نہ تھی پھولوں کے تذکرے سے چبھن اور بڑھ گئی یہ باغباں ہمارے لہو کا کمال ہے نیرنگئ بہار چمن اور بڑھ گئی یہ ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں

    ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں دیا جلا کے سر شام چھوڑ آیا ہوں کبھی نصیب ہو فرصت تو اس کو پڑھ لینا وہ ایک خط جو ترے نام چھوڑ آیا ہوں ہوائے دشت و بیاباں بھی مجھ سے برہم ہے میں اپنے گھر کے در و بام چھوڑ آیا ہوں کوئی چراغ سر رہ گزر نہیں نہ سہی میں نقش پا کو بہر گام چھوڑ آیا ہوں ابھی ...

    مزید پڑھیے

    کتنے باہوش ہو گئے ہم لوگ

    کتنے باہوش ہو گئے ہم لوگ خود فراموش ہو گئے ہم لوگ جس نے چاہا ہمیں اذیت دی اور خاموش ہو گئے ہم لوگ دل کی آواز بھی نہیں سنتے کیا گراں گوش ہو گئے ہم لوگ ہم کو دنیا نے پارسا سمجھا جب خطا کوش ہو گئے ہم لوگ پی گئے جھڑکیاں بھی ساقی کی کیا بلانوش ہو گئے ہم لوگ اس طرح پی رہے ہیں خون ...

    مزید پڑھیے

    خشک دریا پڑا ہے خواہش کا

    خشک دریا پڑا ہے خواہش کا خواب دیکھا تھا ہم نے بارش کا مستقل دل جلائے رکھتا ہے ہے یہ موسم ہوا کی سازش کا اس سے کہنے کو تو بہت کچھ ہے وقت ملتا نہیں گزارش کا کوئی اس سے تو کچھ نہیں کہتا بو رہا ہے جو بیچ رنجش کا پا بہ زنجیر چل رہے ہیں جو ہم یہ بھی پہلو ہے اک نمائش کا پھول کل تھے تو ...

    مزید پڑھیے

    اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا

    اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا سورج کو سمندر میں اترنا ہی پڑے گا فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے خوشبو ہے اگر وہ تو بکھرنا ہی پڑے گا پڑتی ہے تو پڑ جائے شکن اس کی جبیں پر سچائی کا اظہار تو کرنا ہی پڑے گا ہر شخص کو آئیں گے نظر رنگ سحر کے خورشید کی کرنوں کو بکھرنا ہی پڑے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2