اعجاز راہی کی نظم

    زندہ رہنے کا اسم اعظم

    پھر صدا تنگ و تاریک غاروں سے ابھری تا بہ حد نظر نیلگوں آسمانوں سے الجھی پھر صداؤں کے بے نور سے شامیانے مقید فضاؤں کا حصہ بنے اور بگولوں میں الجھا ہوا اک مسافر گرا زردیوں نے صداؤں کا پیچھا کیا پھر صداؤں کے اندھے کنویں سے زبانوں کے پر شور رہٹوں کی اک اک کڑی سامنے آ گئی تب کسی نے ...

    مزید پڑھیے

    سوال سوال سیاہ کشکول

    مدتوں سے خموشی کے بے انت ورنوں کی اندھی گپھا میں کھڑا وہ مری پتلیوں میں سوالوں کا نیزہ اتارے ہوئے پوچھتا ہے میں تیری تمنا میں اپنے لیے درد کے اک سیہ رو سمندر سے تنہائیوں کے سیہ سیپ لایا سکھ کے سارے دئے اور مسرت کی مالاؤں کو توڑ کر دکھ کا ور میں نے مانگا کہ تو میری رکھشا کو آئے مگر ...

    مزید پڑھیے

    کالے موسموں کی آخری رات

    تب ہزاروں اندھیروں سے اک روشنی کی کرن پھوٹ کر سرد ویران کمرے کے تاریک دیوار و در سے الجھنے لگی اور کمرے میں پھرتے ہوئے سیکڑوں زرد ذرے صداؤں کے آغوش پر بلبلاتے سسکتے ہوئے میری جانب بڑھے میں نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی زرد ذروں سے گویا ہوا دوستو آؤ بڑھتے چلیں روشنی کی طرف روشنی ...

    مزید پڑھیے

    سوال سوال سیاہ کشکول

    مدتوں سے خموشی کے بے انت ورنوں کی اندھی گپھا میں کھڑا وہ میری پتلیوں میں سوالوں کا نیزہ اتارے ہوئے پوچھتا ہے میں تیری تمنا میں اپنے لیے درد کے اک سیہ رو سمندر سے تنہائیوں کے سیہ سیپ لایا سکھ کے سارے دیئے اور مسرت کی مالاؤں کو توڑ کر دکھ کا ور میں نے مانگا کہ تو میری رکھشا کو ...

    مزید پڑھیے

    تب ہزاروں اندھیروں سے

    اک روشنی کی کرن پھوٹ کر سرد ویران کمرے کے تاریک دیوار و در سے الجھنے لگی اور کمرے میں پھرتے ہوئے سینکڑوں زرد ذرے بلبلاتے سسکتے ہوئے میری جانب بڑھے میں نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی زرد ذروں سے گویا ہوا دوستو آؤ بڑھتے چلیں روشنی کی طرح روشنی کی طرف روشنی جو ہماری تمناؤں کی پیاس ...

    مزید پڑھیے