سوال سوال سیاہ کشکول

مدتوں سے
خموشی کے بے انت ورنوں کی اندھی گپھا میں
کھڑا وہ
مری پتلیوں میں
سوالوں کا نیزہ اتارے ہوئے پوچھتا ہے
میں تیری تمنا میں اپنے لیے
درد کے اک سیہ رو سمندر سے
تنہائیوں کے سیہ سیپ لایا
سکھ کے سارے دئے
اور
مسرت کی مالاؤں کو توڑ کر
دکھ کا ور میں نے مانگا
کہ تو میری رکھشا کو آئے
مگر مجھ کو کیوں
ان اذیت کی کالی صلیبوں پہ
خاموشیوں کی درندہ صفت کیل سے جڑ دیا ہے
مجھے کس لیے
کالے شبدوں کے بے نور کیچڑ میں
پھینکا گیا ہے
سیہ رات کا ماتمی ساز چھیڑے
بجھی بانجھ نظروں سے وہ پوچھتا ہے
میں اک ور کی خاطر
بھلا کیوں
سزا وار سمجھا گیا ہوں