Dwijendra Dwij

دوجیندر دوج

دوجیندر دوج کی غزل

    نہ واپسی ہے جہاں سے وہاں ہیں سب کے سب

    نہ واپسی ہے جہاں سے وہاں ہیں سب کے سب زمیں پہ رہ کے زمیں پر کہاں ہیں سب کے سب کوئی بھی اب تو کسی کے مخالفت میں نہیں اب ایک دوسرے کے راز داں ہیں سب کے سب قدم قدم پہ اندھیرے سوال کرتے ہیں یہ کیسے نور کا طرز بیاں ہیں سب کے سب وہ بولتے ہیں مگر بط رکھ نہیں پاتے زبان رکھتے ہے پر بے زباں ...

    مزید پڑھیے

    ذہن میں اور کوئی ڈر نہیں رہنے دیتا

    ذہن میں اور کوئی ڈر نہیں رہنے دیتا شور اندر کا ہمیں گھر نہیں رہنے دیتا کوئی خوددار بچا لے تو بچا لے ورنہ پیٹ کاندھوں پہ کوئی سر نہیں رہنے دیتا آسماں بھی وہ دکھاتا ہے پرندوں کو نئے ہاں مگر ان پہ کوئی پر نہیں رہنے دیتا خشک آنکھوں میں اتر آتا ہے بادل بن کر درد احساس کو بنجر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اشک بن کر جو چھلکتی رہی مٹی میری

    اشک بن کر جو چھلکتی رہی مٹی میری شعلے کچھ یوں بھی اگلتی رہی مٹی میری میرے ہونے کا سبب مجھ کو بتاتی لیکن میرے پیروں میں دھڑکتی رہی مٹی میری کچھ تو باقی تھا مری مٹی سے رشتہ میرا میری مٹی کو ترستی رہی مٹی میری دور پردیش کے تارے میں بھی شبنم کی طرح میری آنکھوں میں چمکتی رہی مٹی ...

    مزید پڑھیے

    اس کا ہے عزم سفر اور نکھرنے والا

    اس کا ہے عزم سفر اور نکھرنے والا سخت موسم سے مسافر نہیں ڈرنے والا چار گر تجھ سے نہیں کوئی توقع مجھ کو درد ہوتا ہے دوا حد سے گزرنے والا نا خدا تجھ کو مبارک ہو خدائی تیری ساتھ تیرے میں نہیں پار اترنے والا اس پہ احسان یہ کرنا نہ اٹھانا اس کو اپنے پیروں پہ کھڑا ہوگا وہ گرنے ...

    مزید پڑھیے

    میں اس درخت کا بس آخری ہی پتہ تھا

    میں اس درخت کا بس آخری ہی پتہ تھا جسے ہمیشہ ہوا کے خلاف لڑنا تھا میں زندگی میں کبھی اس قدر نہ بھٹکا تھا کہ جب ضمیر مجھے رستہ دکھاتا تھا مشین بن تو چکا ہوں مگر نہیں بھولا کہ میرے جسم میں دل بھی کبھی دھڑکتا تھا وہ بچہ کھو گیا دنیا کی بھیڑ میں کب کا حسین خوابوں کی جو تتلیاں پکڑتا ...

    مزید پڑھیے

    یہ کون چھوڑ گیا اس پہ خامیاں اپنی

    یہ کون چھوڑ گیا اس پہ خامیاں اپنی مجھے دکھاتا ہے آئینہ جھریاں اپنی بنا کے چھاپ لو تم ان کو سرخیاں اپنی کنویں میں پھینک دی ہم نے تو نیکیاں اپنی بدلتے وقت کہ رفتار تھامتے ہیں حضور بدلتے رہتے ہیں اکثر جو ٹوپیاں اپنی قطاریں دیکھ کے لمبی ہزاروں لوگوں کی میں پھاڑ دیتا ہوں اکثر سب ...

    مزید پڑھیے

    آئنے کتنے یہاں ٹوٹ چکے ہیں اب تک

    آئنے کتنے یہاں ٹوٹ چکے ہیں اب تک آفریں ان پہ جو سچ بول رہے ہیں اب تک ٹوٹ جائیں گے مگر جھک نہیں سکتے ہم بھی اپنے ناموں کی حفاظت میں تنے ہیں اب تک رہنما ان کا وہاں ہے ہی نہیں مدت سے قافلہ والے کسے ڈھونڈ رہے ہیں اب تک اپنے اس دل کو تسلی نہیں ہوتی ورنہ ہم حقیقت تو تری جان چکے ہیں اب ...

    مزید پڑھیے

    جتنا دکھتا ہوں مجھے اس سے زیادہ نہ سمجھ

    جتنا دکھتا ہوں مجھے اس سے زیادہ نہ سمجھ اس زمیں کا ہوں مجھے کوئی فرشتہ نہ سمجھ یہ تری آنکھ کے دھوکہ کے سوا کچھ بھی نہیں ایک بہتے ہوئے دریا کو کنارا نہ سمجھ چھوڑ جائے گا ترا ساتھ اندھیرے میں یہی یہ جو سایہ ہے ترا اس کو بھی اپنا نہ سمجھ جن کتابوں نے اندھیروں کے سوا کچھ نہ دیا ان ...

    مزید پڑھیے