Diya Jeem

دیا جیم

دیا جیم کی غزل

    تیرے آنگن میں وفاؤں کا شجر رکھا تھا

    تیرے آنگن میں وفاؤں کا شجر رکھا تھا اپنے ہونٹوں پہ دعاؤں کا شجر رکھا تھا کیسے نہ یاد کی کھڑکی میں ٹھہرتی کل شب میرے کمرے میں صداؤں کا شجر رکھا تھا یاد جاناں کے پرندوں کے سکوں کی خاطر اپنے سینے میں وفاؤں کا شجر رکھا تھا جانے کیا سوچ کے فطرت سے محبت کی تھی میرے اجداد نے گاؤں کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2