تیرے آنگن میں وفاؤں کا شجر رکھا تھا
تیرے آنگن میں وفاؤں کا شجر رکھا تھا اپنے ہونٹوں پہ دعاؤں کا شجر رکھا تھا کیسے نہ یاد کی کھڑکی میں ٹھہرتی کل شب میرے کمرے میں صداؤں کا شجر رکھا تھا یاد جاناں کے پرندوں کے سکوں کی خاطر اپنے سینے میں وفاؤں کا شجر رکھا تھا جانے کیا سوچ کے فطرت سے محبت کی تھی میرے اجداد نے گاؤں کا ...