Davarka Das Shola

دوارکا داس شعلہ

دوارکا داس شعلہ کی غزل

    ذرا نگاہ اٹھاؤ کہ غم کی رات کٹے

    ذرا نگاہ اٹھاؤ کہ غم کی رات کٹے نظر نظر سے ملاؤ کہ غم کی رات کٹے اب آ گئے ہو تو میرے قریب آ بیٹھو دوئی کے نقش مٹاؤ کہ غم کی رات کٹے شب فراق ہے شمع امید لے آؤ کوئی چراغ جلاؤ کہ غم کی رات کٹے کہاں ہیں ساقی‌ و مطرب کہاں ہے پیر حرم کہاں ہیں سب یہ بلاؤ کہ غم کی رات کٹے کہاں ہو میکدے ...

    مزید پڑھیے

    اپنوں کے ستم یاد نہ غیروں کی جفا یاد

    اپنوں کے ستم یاد نہ غیروں کی جفا یاد وہ ہنس کے ذرا بولے تو کچھ بھی نہ رہا یاد کیا لطف اٹھائے گا جہان گزراں کا وہ شخص کہ جس شخص کو رہتی ہو قضا یاد ہم کاگ اڑا دیتے ہیں بوتل کا اسی وقت گرمی میں بھی آ جاتی ہے جب کالی گھٹا یاد محشر میں بھی ہم تیری شکایت نہ کریں گے آ جائے گی اس دن بھی ...

    مزید پڑھیے

    زیست بے وعدۂ انوار سحر ہے کہ جو تھی

    زیست بے وعدۂ انوار سحر ہے کہ جو تھی ظلمت بخت بہ ہر رنگ و نظر ہے کہ جو تھی عشق برباد کن راحت دل ہے کہ جو تھا شوخیٔ دوست بہ انداز دگر ہے کہ جو تھی آج بھی کوئی نہیں پوچھتا اہل دل کو آج بھی ذلت ارباب نظر ہے کہ جو تھی خود پرستی کا رواج آج بھی ہے عام کہ تھا راستی آج بھی محتاج اثر ہے کہ جو ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کیا ہے ابتلا کے سوا

    زندگی کیا ہے ابتلا کے سوا شکوۂ درد لا دوا کے سوا تیری دنیا میں کیا نہیں ملتا اک دل درد آشنا کے سوا چارۂ‌ درد زندگی کیا ہے آہ جانکاہ‌ و التجا کے سوا کچھ نہیں اختیار میں اپنے بندگی کے سوا دعا کے سوا میں نے ہر بات ان سے کہہ ڈالی لیکن اک حرف مدعا کے سوا میری امداد سب نے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2