Darshika wasani

درشکا وسانی

درشکا وسانی کی نظم

    بڑھاپے کی چوٹی

    عمر اور راستے کٹتے چلے گئے ابھی ابھی سانسیں سنبھلی تھی نہ جانے کب حوصلے بھی سنبھلتے چلے گئے شروعاتی یہ راستے سیدھے سرل صاف ہوا کرتے تھے اونچائی پہ بڑھتے ہی پتھریلے ہوئے کانٹوں سے گرست ہاں کبھی کوئی جھرنا مل جاتا تھا پیڑ بھی چھاؤں لے کر میری مدد کو آتے تھے وہ جھرنے وہ چھاؤں مگر ...

    مزید پڑھیے

    ایک اور شرابی شام

    چلو آج ایک اور کوشش ہوگی پھر ایک شام ڈوب جائے گی شراب میں زندگی کے اندھیرے سرد ٹکڑے جام میں گھل کر ہونٹھوں کے حوالے ہوں گے زباں پہ تھرکتی تشنگی دھیرے دھیرے حلق تک پھیل جائے گی خاموشی کا لباس پہنے کونے میں قید تنہائی رہا ہوگی اور نس نس میں دوڑ کر رقص کرے گی میرے لہو میں بہہ رہے اس ...

    مزید پڑھیے

    پورا چاند

    پورا چاند پورا چاند نہیں دیا تم نے مجھے میری یہ نادان شکایت یاد ہے تمہیں چھوٹے سے گھر کی ٹوٹی ہوئی چھت سے چاند کو ٹکڑوں میں دیکھا کرتی تھی تم مجھے دیکھتے رہتے میں چھت میں کچھ ڈھونڈھا کرتی تھی ہاتھ بڑھا کر چھو لوں جی کرتا تھا تمہارے ہاتھ میں پروئی انگلیاں چھوٹا نہیں کرتی تھی کتنی ...

    مزید پڑھیے

    کاش

    اس خاموش قلعے کی سخت لوہے سی دیواریں ہر طرف سفید غمگین پردہ وہ اپنی عالی شان کرسی پر بیٹھی کوئی حساب جوڑ رہی ہے اس کا پھیکا سپاٹ بوجھل چہرہ جیسے بھیتر کا ایک روپ اس کے اوپری روپ رنگ کو کھا چکا ہو اچانک دروازے کی دستک دبی ہوئی سسکیوں کا شور اونچے دروازے کو کھولتے ہی اس کی بھاؤ ...

    مزید پڑھیے

    اشک میرے اپنے

    جا رہی ہوں میں کر رہی ہوں تمہارا گھر تمہارے حوالے خالی ہو جائے گی ہر وو جگہ جو میرے اشکوں سے بھری ہے ابھی لے جاؤں گی ہر اشک اپنے ساتھ سمیٹ کر کچھ گملوں کے پھول پہ اوس سے چمک رہے ہوں گے کچھ سج دھج کے بیٹھے ہوں گے دہلیز پہ زرد تھے جو کچھ جانے اڑ کے کہاں گرے ہوں گے کچھ مٹی کے اندر بیج بن ...

    مزید پڑھیے

    کیا وہیں ملو گے تم

    کچھ دنوں سے میں جب بھی آئینے میں اپنی ہلکی سفید لٹیں دیکھتی ہوں ایک جانا پہچانا راستہ نظر آتا ہے جس کے ایک کنارے تم چل رہے ہو دوسرے پہ میں چپ چاپ اجنبی بن کر تمہارا دھندلا سا چہرہ وہ کالی فریم والے چشمے کانوں کے پاس اگی ہوئی کچھ ایسی ہی سفید لکیریں میں تمہیں غور سے دیکھ نہیں پا ...

    مزید پڑھیے

    ترے بغیر

    درد گر بے حد ہوا تو حوصلے بڑھ جائیں گے تم زخم کریدو گے ہم اور نکھر جائیں گے تیری رنجشوں نے سانس دی بے چینیوں نے نیند ہمیں خوش نما ماحول اور سکون کاٹ کھائیں گے خود کو گلے لگا کر رونا بھی ہے حسین اپنے آپ سے لڑیں گے خود کی گود میں سو جائیں گے یہ نا سمجھنا کے یہ رفتار ہے تم سے تیرے ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری آنکھیں

    تمہاری آنکھیں تم وہیں تو بستے ہو ایک جسم کو دنیا نے تمہارا نام دیا تمہیں پایا تمہاری آنکھوں میں ہے میں نے ان دو پلکوں نے چھوا ہے مجھے تمہاری انگلیوں کے جادوئی اسپرش سی میرے چہرے کی نرم گلابی گلیوں میں کھوئی میری زلفوں میں الجھی ہوئی ریشم سے تر بہ تر یہ آنکھیں کبھی ہونٹھ بن کر ...

    مزید پڑھیے

    بھوک میں دبے بچپن

    شریر میں کوئی تڑپ سی ہوگی یا کوئی عادت سی پڑی ہوگی کئی دنو کی کئی چیزو کی بھوک تو ہوگی کوئی مقصد ہوگا یا یوں ہی زندگی ننگے پاؤں کی دوڑ ہوگی دھوپ کو پردوں سے واپس بھیج دیا امیروں نے وو جا کر کئی آنکھوں میں اندھیرے بھر رہی ہوگی کچھ ہے نہیں ٹکرانے کو کیا اسی کارن مایوسی میں لپٹی ...

    مزید پڑھیے