دانش فراہی کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    شیشے سے زیادہ نازک تھا یہ شیشۂ دل جو ٹوٹ گیا

    شیشے سے زیادہ نازک تھا یہ شیشۂ دل جو ٹوٹ گیا مت پوچھو کہ مجھ پر کیا گزری جب ہاتھ سے ساغر چھوٹ گیا تاریکئ محفل کا شکوہ تم کرتے ہو اے دیوانو کیوں خود شمع بجھا دی ہے تم نے خود بخت تمہارا پھوٹ گیا ساقی کی نظر اٹھتی ہی نہیں کیوں بادہ و ساغر کی جانب سرمایۂ مے خانہ آ کر کیا کوئی لٹیرا ...

    مزید پڑھیے

    نہ وہ طائروں کا جمگھٹ نہ وہ شاخ آشیانہ

    نہ وہ طائروں کا جمگھٹ نہ وہ شاخ آشیانہ تم اسے خزاں کہو گے کہ بہار کا زمانہ میں وفاؤں کا ہوں پیکر مرا جذب مخلصانہ مجھے آزما لے ہمدم جو تو چاہے آزمانا تو مجھے تباہ کر دے تو مرا نشاں مٹا دے نہ کروں گا میں گوارا مگر اپنا سر جھکانا جو اسے کوئی سنے گا تو بھلا یقیں کرے گا یہ جناب شیخ ...

    مزید پڑھیے

    ستم کے بعد بھی باقی کرم کی آس تو ہے

    ستم کے بعد بھی باقی کرم کی آس تو ہے وفا شعار نہیں وہ وفا شناس تو ہے وہ دل کی بات زباں سے نہ کچھ کہیں شاید ہمارے حال پہ چہرہ مگر اداس تو ہے یہ دل فریب بنارس کی صبح کا منظر اودھ کی شام دل آرا ہمارے پاس تو ہے بھرم رہے گا ترے مے کدے کا بھی ساقی بلا سے خالی سہی ہاتھ میں گلاس تو ہے چلے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اپنے دور کی بھی کہانی لکھا کرو

    کچھ اپنے دور کی بھی کہانی لکھا کرو پتھر کو موم خون کو پانی لکھا کرو جدت کی رو میں لوگ کہاں سے کہاں گئے تم سے بنے تو بات پرانی لکھا کرو وہ عہد ہے کہ شعلہ فشاں بجلیوں کو بھی غزلوں میں رنگ و نور کی رانی لکھا کرو لفظوں کو اپنے اصل معانی سے عار ہے اب دوستوں کو دشمن جانی لکھا کرو ہے ...

    مزید پڑھیے

    حشر اک گزرا ہے ویرانے پہ گھر ہونے تک

    حشر اک گزرا ہے ویرانے پہ گھر ہونے تک جانے کیا بیتی ہے دانے پہ شجر ہونے تک ہجر کی شب یہ مرے سوز دروں کا عالم جل کے میں خاک نہ ہو جاؤں سحر ہونے تک اہل دل رہتے ہیں تا زیست وفا کے پابند شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک بے قراری کا یہ عالم ہے سر شام ہی جب دیکھیں کیا ہوتا ہے اس دل کا ...

    مزید پڑھیے

تمام