دل سے اک آگ کی دیوار ابھرتی جائے
دل سے اک آگ کی دیوار ابھرتی جائے زینہ زینہ شب تنہائی اترتی جائے تم سے ملنے کا جو برسوں میں کبھی آئے خیال ہر طرف فاصلوں کی ریت بکھرتی جائے وقت کی چال کو ہم رو کے رہیں کمرے میں اور ادھر رات اندھا دھند گزرتی جائے تپتا صحرا ہے ہر اک شہر اور امید سکوں ایک بدلی ہے جو اوپر سے گزرتی ...