Chandra Parkash Shad

چندر پرکاش شاد

ممتاز جدید شاعروں میں شامل

One of the prominent modern poets

چندر پرکاش شاد کی غزل

    دل سے اک آگ کی دیوار ابھرتی جائے

    دل سے اک آگ کی دیوار ابھرتی جائے زینہ زینہ شب تنہائی اترتی جائے تم سے ملنے کا جو برسوں میں کبھی آئے خیال ہر طرف فاصلوں کی ریت بکھرتی جائے وقت کی چال کو ہم رو کے رہیں کمرے میں اور ادھر رات اندھا دھند گزرتی جائے تپتا صحرا ہے ہر اک شہر اور امید سکوں ایک بدلی ہے جو اوپر سے گزرتی ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک امکان تک پسپائی ہے اپنی

    ہر اک امکان تک پسپائی ہے اپنی اور اس کے بعد صف آرائی ہے اپنی سزا سمجھو مجھے اس کھوکھلے پن کی صدا ہر سمت سے لوٹ آئی ہے اپنی جماعت بے جماعت ایک سا ہوں میں کہ صدہا شکل کی تنہائی ہے اپنی اب ان سیرابیوں کا سلسلہ کب تک خبر تو مدتوں تک پائی ہے اپنی پھر اپنے آپ میں گرنے لگا ہوں میں وہی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی ہوا نے کبھی اڑتے پتھروں نے کیا

    کبھی ہوا نے کبھی اڑتے پتھروں نے کیا ہمیں تو نشر عجب سی وضاحتوں نے کیا تمام منظر شب ڈھیر ہو گیا دل پر یہ کیا ستم مرے قدموں کی آہٹوں نے کیا ہر ایک چیز لگی ٹوٹتی سی باہر کی کہ جو کیا مرے اندر کے منظروں نے کیا کھلی نہ آنکھ کبھی ایک پل کو صحرا کی اگرچہ شور بہت اڑتی بستیوں نے کیا ادھر ...

    مزید پڑھیے

    کیسا وہ موسم تھا یہ تو سمجھ نہ پائے ہم

    کیسا وہ موسم تھا یہ تو سمجھ نہ پائے ہم شاخ سے جیسے پھل ٹوٹے کچھ یوں لہرائے ہم برسوں سے اک آہٹ پر تھے کان لگائے ہم آج اس موڑ پہ آپ ہی اپنے سامنے آئے ہم ہم سے بچھڑ کر تو نے ہم کو کیسا دیا ہے شاپ آئینے میں اپنی صورت دیکھ نہ پائے ہم پیڑوں کا دھن لوٹ چکے ہیں لوٹنے والے لوگ جسم پہ مل کر ...

    مزید پڑھیے

    سبھی سمتوں کو ٹھکرا کر اڑی جائے

    سبھی سمتوں کو ٹھکرا کر اڑی جائے کہاں تک جانے گرد گم رہی جائے بچا کر اپنے سائے کو کہاں رکھوں کہ شب تو ہر طرف کو پھیلتی جائے کوئی دیوار ہے تیری سماعت بھی کہ جو آواز آئے لوٹتی جائے نہ پہروں لکھ سکوں میں کوئی بات اپنی عجب سی گرد کاغذ پر جمی جائے اچانک ٹوٹ جائے قصر تنہائی کوئی آواز ...

    مزید پڑھیے

    بدن کو اپنی بساط تک تو پسارنا تھا

    بدن کو اپنی بساط تک تو پسارنا تھا ہر ایک شے کو لہو کے رستے گزارنا تھا جدھر فصیلوں نے اس کو موڑا یہ مڑ گئی ہے ہوا کی موجوں میں کوئی کوندا اتارنا تھا تو کیا سبب سات پانیوں کو نہ پی سکے ہم خود اپنا ڈوبا ہوا جزیرہ ابھارنا تھا میں اپنے اندر سمٹ گیا ایک لمحہ بن کر کہیں تو اپنے جنم کا ...

    مزید پڑھیے

    پچھلے سفر کا عکس زیاں میرے سامنے

    پچھلے سفر کا عکس زیاں میرے سامنے سب بستیاں دھواں ہی دھواں میرے سامنے کس خطۂ طلب میں اچانک پڑے تھے پاؤں امڈا ہوا تھا دشت گماں میرے سامنے جھونکا سا بیت جاؤں کہ دیوار سا رکوں اک آ پڑی ہے جائے اماں میرے سامنے شہر صدا پہ ہے کوئی پردہ پڑا ہوا کوئی گلی نہ کوئی مکاں میرے سامنے اس پر ...

    مزید پڑھیے